دنیا کےبیشتر ملکوں کی طرح برطانیہ بھر کی مساجد میں جمعرات کی شب ماہ مبارک رمضان الکریم کی ہزار راتوں سے افضل ترین رات لیلتہ القدر مذہبی جوش و جذبے اور انتہائی عقیدت کے ساتھ منائی گئی.
اس سلسلے میں ملک بھر مساجد کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا اور ستائیسویں شب کی رحمتیں اور برکتیں حاصل کرنے کے لیے روح پرور اجتماعات منعقد کئے گئے۔
دارالحکومت لندن کی مساجد میں نماز تراویح میں ختم قرآن کے اجتماعات، محافل شبینہ اور خطبات کی خصوصی نشستوں کا اہتمام کیا گیا جن میں علمائے کرام نے ماہ صیام کے آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں کے فضائل بیان کئے۔
علماء کا کہنا تھا کہ رمضان کے آخری عشرے کی راتوں میں اہل ایمان پر رحمتوں اور برکتوں کا نزول عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے جس میں قرآن الکریم لوح محفوظ سے اتارا گیا تھا۔ ستائیسویں شب کی عبادت اس حوالے سے خصوصی فضلیت رکھتی ہے۔
ایسٹ لندن میں واقع 'مسجد غوثیہ' میں ستائیسویں شب کی عبادات کے سلسلے میں ایک بڑا اجتماع منعقد کیا گیا جس میں مختلف کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں اور بالخصوص برطانوی نژاد پاکستانی شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی اور رات بھر عبادات میں مشغول رہی۔
علامہ جنید نے اپنے خطبے میں رمضان الکریم کی خصوصی عبادات کے حوالے سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک بڑی بزرگی اور رحمتوں وبرکتوں کا مہینہ ہے جس میں اللہ سے گریہ و زاری کی جاتی ہے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بخشش کی رات ہے اور اس ایک رات کی عبادت کے بدلے میں ہزاروں راتوں کی نیکیوں کے برابرثواب ملتا ہے۔ یہ رات اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں 'وی او اے' کو بتایا کہ شب قدر کی اس بابرکت رات کا پاکستان سے بہت گہرا تعلق ہے کیونکہ پاکستان بھی اسی مبارک رات کو وجود میں آیا تھا۔ اسی رات قرآن کا نزول ہوا اور اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک نظام کے نزول کی رات ہے۔
علامہ جنید کا کہنا تھا کہ صحیح معنوں میں پاکستان کے جشن آزادی کی خوشیاں اسی بابرکت رات کے موقع پر منائی جانی چاہئیں۔
علامہ جنید نے 'وی او اے' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لندن کی مقامی انتظامیہ کی جانب سے محافل شبینہ یا دیگر مذہبی اجتماعات کے سلسلے میں مساجد کو پورا تعاون حاصل ہوتا ہے اور اگر مقامی پولیس کو پروگرام کے حوالے سے پہلے سے مطلع کر دیا جائے تو مقامی انتظامیہ مساجد کے آس پاس کی سڑکوں کی پارکنگ فری کردیتی ہے اور اس روز پارکنگ فیس وصول نہیں کی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ برطانوی مساجد کے اندر لاوڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی نہیں ہے لیکن رواں برس ماہ صیام میں شدید گرمی کے باعث مساجد کی کھڑکیاں اور دروازے کھلے رکھے گئے جس کی وجہ سے اذان اور رات دیر گئے خطبات کی آوازیں باہر دور تک سنائی دی گئیں۔ لیکن یہ امر قابل ذکر ہے کہ اہل علاقہ کی جانب سے پورے مہینے اس بات پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔
علامہ صاحب کا کہنا تھا کہ مجھے اس بات پر بہت خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ایک غیر اسلامی ملک میں رہتے ہوئے ہمیں اپنی مذہبی عقائد پر عمل پیرا پونے میں کسی قسم کی کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی بلکہ ایسی کئی اور سہولتیں یہاں میسر ہیں جو کہ شاید کسی اسلامی ملک میں بھی دستیاب نہیں ہوں۔
انھوں نے کہا کہ برطانوی حکومت کی جانب سے ہر سال رمضان کے موقع پر افطار اور عیدین کی خصوصی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔
برطانوی مساجد میں ہونے والے اجتماعات میں علمائے کرام نے عالم اسلام کے اتحاد اور دنیا بھر میں امن وامان کے قیام کے علاوہ پاکستان کی سلامتی، خوشحالی، ترقی اور استحکام کے لیے خصوصی دعائیں کرائیں۔