سال 1950ء کے بعد سے برطانیہ کی شہرہ آفاق رائل ملٹری اکیڈیمی ’سینڈہرسٹ‘ اعلیٰ عسکری تربیت کے لیے دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک کے فوجی افسروں کا پہلا انتخاب رہی ہے۔ گزشتہ 70 برسوں میں دنیا کے 120 ممالک سے پانچ ہزار کے قریب بین الاقوامی طالب علم لندن کے جنوب مغرب میں واقع اس فوجی اکیڈمی سے تربیتی کورس مکمل کر چکے ہیں۔
سینڈہرسٹ سے فارغ التحصیل کئی فوجی افسران نے اپنے ملکوں میں جا کر اپنی فوجوں اور حکومتوں کی قیادت کی۔
وائس آف امریکہ کے لیے جیمی ڈیٹمر کی رپورٹ کے مطابق، اب چین بھی غیر ملکی افواج کی تربیت کے اپنے پروگرام کو وسعت دے رہا ہے اور دولت مشترکہ میں شامل ان ممالک کو بظاہر مرعوب کرتا نظر آتا ہے جن پر برطانیہ کی حکومت رہی ہے اور اب ایک برطانوی تحقیقی تنظیم کے مطابق، وہاں سے ریکارڈ تعداد میں فوجی افسر چین کے غیر ملکی تربیتی پروگرام کے لیے اندراج کروا رہے ہیں۔
لندن میں قائم پالیسی ریسرچ گروپ سے وابستہ سویٹاس کا کہنا ہے کہ گھانا، یوگنڈا اور تنزانیہ سمیت متعدد افریقی ممالک نے چین کی مدد سے ’پولیٹیکو ملٹری اسکول‘ کھولے ہیں۔
کیا یورپ چین کے 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو' کا مقابلہ کر سکتا ہے؟
’چین کی فوجی تعلیم اور دولت مشترکہ کے ممالک‘ اس عنوان سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں تجزیہ کاروں ریڈومیر ٹائلیکوٹ اور ہینری روسانو نے کہا ہے کہ چین کے فوجی تربیتی پروگرام کو بیجنگ کی طرف سے غیر ملکی ایلیٹ کو تربیت دینے کی کوششوں کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ یہ کوششیں ترقی پذیر ملکوں پر اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے منصوبے کا حصہ ہیں۔
اثر و رسوخ میں اضافہ
رپورٹ کے مصنفین نے خبردار کیا ہے کہ چین غیر ملکیوں کے لیے اپنی فوجی تربیت کو اپنی حکومت کے ماڈل کے فروغ کے لیے استعمال کر رہا ہے اور فوجی تربیت میں نظریاتی تعلیم بھی شامل ہے۔ مصنفین کے مطابق اس تربیت کے دوران چین اپنے ’پارٹی آرمی ماڈل‘ کو بھی بڑھ چڑھ کر بیان کرتا ہے جس میں فوج حکمران جماعت کے ماتحت ہوتی ہے۔ ایسا نظام کثیر جماعتی جمہوری نظام کے منافی ہے۔
غیر ملکی طالب علم چین میں علاقائی اکیڈیمیز کا حصہ بن سکتے ہیں جہاں کیڈٹس اور جونئیر آفیسروں کے لیے کورس ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔ زیادہ تر غیر ملکی فوجی افسر چین کے اندر کمانڈ اینڈ سٹاف کالجوں میں داخلہ لیتے ہیں، بشمول آرمی کمانڈ کالج اور کمانڈ اینڈ سٹاف کالجز آف سروس برانچ آف پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے۔ چوٹی کے افسر نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی اور نیشنل یونیورسٹی آف ڈیفینس ٹیکنالوجی میں داخلہ لیتے ہیں۔ چین میں اس وقت بیس سے زائد فوجی اکیڈیمیز غیر ملکی طالب عملوں کو تربیت کے لیے قبول کر رہی ہیں۔
سیویٹاس کے مطابق، چین نے حالیہ دہائیوں میں سو سے زیادہ ممالک کے درمیانے اور اعلیٰ سطح کے ہزاروں فوجی افسروں کو تربیت فراہم کی ہے اور اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر کامن ویلتھ میں شامل افریقی ممالک سے یہاں آنے والے فوجی طالب علموں کی تعداد میں۔
بیجنگ کے چین۔افریقہ ایکشن پلان برائے 2018 تا 2021 کے لیے پانچ ہزار تربیتی مقامات مختص کیے گئے ہیں جب کہ سال 2015ء سے 2018ء تک ایسے تربیتی مراکز کی تعداد دو ہزار تھی۔ برطانیہ کی سینڈ ہرسٹ اکیڈیمی ایک سال میں 1500 غیر ملکی فوجی افسروں کو تربیت فراہم کرتی ہے۔
چین کے فوجی تربیتی پروگرام میں شامل ممالک میں سے زیادہ تر ایسے ملک ہیں جنہوں نے چین سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) پروگرام کے تحت قرضہ اور ڈھانچہ جاتی سرمایہ کاری حاصل کر رکھی ہے۔ بی آر آئی پر امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین بی آر آئی کے ذریعے ان قرضون کو اپنے سیاسی مقاصد اور قرضوں میں جکڑنے کی سفارت کاری کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
چین کی طرف سے تردید:
برطانیہ کی پارلیمنٹ کی ڈیفینس کمیٹی کے چیئرمین ٹوبیز ایلووڈ نے گزشتہ ہفتے اخبار ’دا ٹائمز‘ کو بتایا تھا کہ دولت مشترکہ میں شامل تقریباً تمام ممالک نے بی آر آئی سے قرضہ لے رکھا ہے۔ چین نے، ان کے بقول، درجنوں ملکوں کو جکڑ رکھا ہے اور اب دنیا کی کل جی ڈی پی کے چوتھے حصے کے برابر قرضے طویل مدتی اکنامک پروگراموں کے تحت دیے جا چکے ہیں۔ یہ ممالک مشکل سے ہی یہ قرضے برداشت کر سکتے ہیں اور اب وہ نیا بین الاقوامی منظرنامہ تشکیل دے رہے ہیں۔ اب یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ چین اپنا اثر و رسوخ فوجی تربیتی اکیڈیمیز تک پھیلا رہا ہے اور برطانیہ کی سینڈہرسٹ اور شریوینہم ڈیفینس اکیڈیمز کی جگہ چین کے ملٹری انسٹی ٹیوٹس لے رہے ہیں۔
’دا گلوبل ٹائمز‘ چین کی کمیونسٹ پارٹی کا ایک ٹیبلائڈ (سنسنی خیزی پھیلانے والا) اخبار ہے۔ اس اخبار کا کہنا ہے کہ چین کے فوجی تربیت کے پروگرام کا مقصد چین کے بارے میں غیر ملکی فوجی افسروں کے ذہنوں میں پہلے سے موجود اس تشخص کو تبدیل کرنا ہے جو مغربی میڈیا نے راسخ کر رکھا ہے۔
تاہم، بعض مغربی سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ چین غیر ملکی فوجی تربیتی پروگراموں کے ذریعے جو تعلقات استوار کر رہا ہے اس کے سیاسی اثرات ہو سکتے ہیں اور ترقی پذیر ملکوں کے اندر سیاسی نظام کی تشکیل میں اس کا کردار ہو سکتا ہے۔
وہ اس ضمن میں زمبابوے کے آنجہانی راہنما رابرٹ موگابے کا حوالہ دیتے ہیں جنہوں نے چین کے انٹرنیشنل کالج آف ڈیفینس سٹڈیز سے گریجوایشن کی۔ ان کے طرز حکمرانی کے سبب انھیں مارکسسٹ خیال کیا جاتا ہے۔