لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے ’’پیمرا‘‘ کو حکم دیا ہے کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی تقاریر، بیانات اور تصاویر کی نشر و اشاعت پر تاحکم ثانی مکمل پابندی کو یقینی بنائے۔
عدالت نے پیمرا حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس ضمن میں ایک نوٹیفیکیشن بھی جاری کرے۔
گزشتہ ہفتے لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے الطاف حسین کی حالیہ تقاریر سے متعلق دائر کی گئی ایک ہی نوعیت کی تین مختلف درخواستوں کی سماعت کے بعد اُن کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔
ان درخواستوں میں استدعا کی گئی تھی کہ الطاف حسین کی تقریروں کو مقامی الیکٹرانک میڈیا پر نشر کرنے کے خلاف مستقل پابندی عائد کی جائے۔
اس بینچ کی سربراہی جسٹس مظہر علی اکبر نقوی کر رہے ہیں جس میں جسٹس مظہر اقبال سدھو اور جسٹس ارم سجاد گل بھی شامل ہیں۔
گزشتہ پیر کو ہونے والی سماعت میں عدالت کے سامنے درخواست گزاروں کے وکلا نے موقف اختیار کیا تھا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنی تقاریر میں فوج، رینجرز اور ملکی سلامتی سے متعلق دیگر اداروں کے بارے میں جو الفاظ استعمال کیے وہ اُن کے بقول ملک کے وقار اور سالیمت کے منافی ہیں۔
ایم کیو ایم کےموقف ہے کہ الطاف حسین پر پابندی عائد کرنا آزادی اظہار کے حق کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے آئندہ سماعت 18 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے وزارت داخلہ کو الطاف حسین کی شہریت کے متعلق تفصیل فراہم کرنے کا حکم دیا ہے، جبکہ پیمرا کو کہا کہ وہ آئندہ سماعت پر عدالت کی طرف سے جاری کیے گئے حکم نامے پر عمل درآمد سے متعلق پیش رفت سے آگاہ کرے۔
اس سال جولائی میں الطاف حسین نے ٹی وی چینل پر براہ راست نشر ہونے والی ایک تقریر میں رینجرز کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔
ایم کیو ایم پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے جس کی پاکستان قومی اسمبلی اور سینیٹ کے علاوہ سندھ کی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی موجود تھی۔ تاہم گزشتہ ماہ ایم کیو ایم کے ارکان نے استعفے دے دیے تھے لیکن تاحال اُنھیں منظور نہیں کیا گیا ہے۔