سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت، متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے رہنما الطاف حسین کی تقاریر پر پیمرا کی جانب سے پابندی پر سخت احتجاج کیا ہے۔ اس حوالے سے جمعہ کو ایک ریلی بھی نکالی گئی، جبکہ کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرہ بھی کیا گیا۔ مظاہرے سے کئی پارٹی رہنماوٴں نے خطاب کیا۔
فاروق ستار نے اپنے خطاب کے دوران الزام لگایا کہ ’ملک میں اظہار رائے اور اظہار خیال کی آزادی پر پابندی سے لگتا ہے کہ جمہوریت کے نام پر بدترین آمریت نافذ ہے، اور اختلاف رائے کا گلا گھونٹا جا رہا ہے‘۔
انہوں نے کراچی میں جاری آپریشن کے حوالے سے کہا کہ ’آپریشن ہو، سیپریشن نہ ہو۔ کراچی کے عوام آپریشن کے خلاف نہیں مگر کارروائی جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہونی چاہئے۔‘
بقول اُن کے، ’اگر کوئی ’مائنس ون‘ کی بات کرے گا، تو ہم اس کی مخالفت کریں گے۔ الطاف حسین مفاہمت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں‘۔
مظاہرے کے شرکاء نے الطاف کے براہِ راست خطاب پر مبینہ ’غیر قانونی اور غیر آئینی پابندی اور ریکارڈیڈ پروگرام کو بھی ٹیلی ویڑن پر نشر نہ کرنے پر‘ پیمرا کو آڑے ہاتھوں لیا۔
شرکاء میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر ’حق پرستوں کے قائد کی زبان بندی نامنظور‘ اور ’پیمرا کا جانبدارانہ فیصلہ نامنظور نامنظور‘ کے نعرے لکھے تھے۔
شرکاء کی بڑی تعداد نے پارٹی پرچم اور الطاف حسین کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔
مظاہرے میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر شاہد پاشا، رابطہ کمیٹی کے اراکین شبیر قائم خانی، امین الحق، عارف خان ایڈوکیٹ، محمد حسین، کمال ملک، عبدالقادر خانزادہ، گلفراز خٹک، اسلم آفریدی، اقبال مقدم، مطیع الرحمٰن، ریحانہ نسرین اور سینیٹ و قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین بھی شریک ہوئے اور شرکاء سے خطاب کیا۔