رسائی کے لنکس

کراچی میں چار خواتین قتل: ’پولیس کو مقتولہ کے بیٹے پر شبہ ہوا جس کے ہاتھوں پر زخم تھے‘


  • کراچی میں لی مارکیٹ کے علاقے میں ساتویں منزل پر ایک فلیٹ سے چار خواتین کی لاشیں ملی تھیں۔
  • پولیس کے مطابق ان تمام خواتین کو تیز دھار آلے سے گلا کاٹ کر قتل کیا گیا۔
  • گھر کے سربراہ نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا۔
  • پولیس کو تفتیش کے دوران مقتولہ کے بیٹے پر شبہ ہوا تھا جس نے دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے ہوئے تھے۔
  • ملزم نے الزام لگایا کہ اسے گھر کی خواتین کا چال چلن پسند نہیں تھا۔
  • کراچی میں گزشتہ برس غیرت کے نام پر 20 افراد کو قتل کیا گیا تھا۔

’’اس فلیٹ کی خواتین کا قتل ہوجائے گا۔ یہ تو سوچا بھی نہیں تھا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اکثر اس گھر سے لڑائی جھگڑے کی آواز آتی تھی جو پوری بلڈنگ سنتی تھی۔‘‘

یہ کہنا ہے ذیشان کا جو زینب آرکیڈ کے رہائشی اور اس گھرانے کے پڑوسی ہیں جہاں چار دن قبل کو ایک 12 سالہ بچی سمیت چار خواتین کا قتل کیا گیا تھا۔

کراچی میں 19 اکتوبر کو لی مارکیٹ کے علاقے بانٹوا گلی، جو لیاری کی مشہور کھجور مارکیٹ بھی کہلاتی ہے، کی ایک تنگ گلی میں قائم سینکڑوں فلیٹوں اور بھیڑ کے درمیان واقع بلڈنگ کی ساتویں منزل پر ایک فلیٹ سے چار لاشیں ملیں۔

اسی تنگ گلی میں لگے شامیانے میں سوئم کا بندوبست کیا جا رہا تھا۔ ٹینٹ میں بیٹھے دو مرد اسی واقعے پر بات کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک شخص نے بتایا کہ سب تو آپ کے سامنے ہے۔ اب کیا بتائیں؟

یہ کہنے والے ساٹھ سالہ شمشاد بیگم کے داماد حسیب تھے۔

حسیب کا کہنا تھا کہ ان کی ساس غصے کی تیز خاتون تھیں جب کہ وہ نفسیاتی مسائل کا بھی شکار تھیں جس کے لیے وہ ادویات لیتی تھیں۔ جب یہ واقعہ ہوا اس رات تین بجے ان کی بیوی کو کال موصول ہوئی تو وہ بچوں کو شوہر (حسیب) کے پاس چھوڑ اپنے والد کے گھر چلی گئیں۔

حسیب کے بقول ان کی بیوی نے کال کرکے انہیں بتایا کہ امی (شمشاد بیگم) ہی نہیں بلکہ ان کی بھابی اور بہن کا بھی قتل ہوا ہے۔

یہ سب سن کر حسیب کے مطابق وہ حیران و پریشان ہوگیا۔

اسی ٹینٹ میں ایک کرسی پر 24 سالہ سمیر ہوش و حواس کھوئے بیٹھے تھے۔ جنہیں دو لڑکوں نے بازوں سے تھام رکھا تھا۔ وہ ہر کچھ دیر بعد کہتے کہ میں اوپر (فلیٹ) جاتا ہوں امی کو دیکھ کر آتا ہوں۔

ملزم کی شناخت

اس واقعے میں سمیر کی 22 سالہ بیوی عائشہ کو بھی قتل کیا گیا جب کہ واقعے میں ان کی تین ماہ کی بچی معجزانہ طور پر بچ گئی۔

پولیس نے اس بچی کو بیڈ کے نیچے سے نکالا تھا جو اب نانی کی پاس ہے۔

پولیس نے ابتدائی طور پر شمشاد بیگم کے شوہر فاروق سومرو کی مدعیت میں ایف آئی آر نامعلوم فرد کے خلاف درج کی تھی۔

قتل کے کچھ ہی گھنٹوں میں تحقیقات کے لیے جب گھر کے تمام مردوں کو طلب کیا گیا۔ تو پولیس حکام کے مطابق انہیں مقتولہ شمشاد بیگم کے بیٹے بلال پر شبہ ہوا جس کے ہاتھوں پر زخم کے نشان تھے۔

پولیس نے اسے شبے میں گرفتار کیا اور پھر بلال نے جرم کا اعتراف بھی کر لیا۔ پولیس نے ملزم کو ہاتھوں پر لگے زخم کی بنیاد پر حراست میں لیا تھا۔

حسیب کے مطابق بلال جب پولیس کے سامنے آیا تھا تو اس نے اپنے دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈالے ہوئے تھے۔ پولیس نے اسے ہاتھ باہر نکالنے کو کہا تو اس نے منع کر دیا، جس پر پولیس کے ایک اہلکار نے اسے تھپڑ مارا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پہلے تو بلال نے قتل کا الزام اپنے والد پر ڈالنے کی کوشش کی۔ لیکن پھر یہ الزام لگایا کہ اسے اپنے گھر کی خواتین کا چال چلن پسند نہیں تھا۔ وہ ان کی آزادی کے خلاف تھا جو کہ بے بنیاد الزام ہے۔

حسیب نے کہا کہ ویسے ہی خاندان پر اتنا ظلم ہوا۔ اوپر سے ان کی کردار کشی کرنا انتہائی افسوس کی بات ہے۔

’لڑائی جھگڑے ہونا معمول کی بات تھی‘

زینب آرکیڈ کے رہائشی محمد ذیشان 10 برس سے اس بلڈنگ کے پانچویں منزل پر رہ رہے ہیں۔

محمد ذیشان کا کہنا تھا کہ اس گھرانے سے علیک سلیک ضرور تھی۔ لیکن ان کے گھر آنا جانا نہیں تھا۔ اکثر لڑائی جھگڑے ہونا معمول کی بات تھی۔

ان کے بقول بلال جو ان کا بیٹا ہے، وہ پہلے ساتھ رہتا تھا۔ لیکن دو سے تین ماہ قبل یہ گھر چھوڑ کر جا چکا تھا۔ قتل کے روز وہ کب آیا اور یہ سب کب کیا۔ کسی کو بھی نہیں معلوم ہوا۔

انہوں نے کہا کہ جتنا میں بلال کی والدہ کو جانتا ہوں، وہ بہت جی دار خاتون تھیں۔ ان کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا تھا۔ ایک لڑکا گھر میں چار قتل کر دے اور کوئی آواز نہ آئے۔ مزاحمت نہ ہو۔ یہ بات دل تسلیم نہیں کرتا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کام بلال نے اکیلے نہیں کیا۔

پولیس کے بیان میں بتایا گیا کہ قتل ہونے والی خواتین میں 60 سالہ شمشاد بیگم، ان کی 21سالہ بیٹی مدیحہ، 12 سالہ نواسی علینہ اور 22 سالہ بہو عائشہ سمیر شامل ہیں۔

پولیس کے مطابق ان تمام خواتین کو تیز دھار آلے سے گلا کاٹ کر قتل کیا گیا۔

حکام نے ملزم بلال کے بارے میں بتایا کہ وہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے چکا ہے۔ جس کا الزام اس نے اپنے گھر کی خواتین کی آزاد خیالی، باہر گھومنے پھرنے اور ٹک ٹاک بنانے کی وجہ قرار دیا۔ ملزم بلال اب جہاں دوسری شادی کرنا چاہتا تھا تو اس میں رکاوٹ آ رہی تھی کیوں کہ وہ گھر چھوڑ چکا تھا اور اس کے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔

پولیس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ملزم بلال نے اسی فلیٹ کو اپنے نام کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا جس پر گھر والے منع کر چکے تھے ۔ ملزم اپنے گھر والوں سے ناراض تھا اور تحریری طور پر لاتعلقی اختیار کر چکا تھا۔

پولیس کی جانب سے دیے جانے والے بیان پر حسیب اس کی تائید کرتے ہیں۔ لیکن خواتین کے کردار پر اٹھنے والے سوالات کو انھوں نے سختی سے رد کیا۔

حسیب کا کہنا تھا کہ بلال دو ماہ سے جس خاندان میں شادی کرنا چاہ رہا تھا۔ وہ بھی اسے فلیٹ اپنے نام کرانے پر اکسا رہے تھے۔ وہ دو ماہ سے اسی خاندان کے ساتھ مقیم تھا۔ ان کے خاندان کے ہمراہ عمرے پر بھی گیا تھا اور دو ہفتے قبل لوٹا تھا جس کے بعد اس نے دعویٰ کیا کہ اس کا نکاح اس خاندان کی ایک لڑکی سے سعودی عرب کے شہر مدینہ میں ہو گیا ہے۔ لیکن اس کا کوئی ثبوت اس نے پیش نہیں کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ہمیں یہ سننے میں ضرور آیا کہ فلیٹ اپنے نام کرانے کی ضد پر اس کی اکثر گھر والوں سے تکرار ہوتی رہتی تھی جس سے سب ہی گھر کے افراد تنگ تھے۔

شہری علاقوں میں خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایس آر سی پی) کے جاری کردہ 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے میں کراچی شہر کے اندر 20 واقعات رپورٹ ہوئے۔

رواں برس کراچی میں ایک ہی روز میں غیرت کے نام پر اگست میں دو خواتین قتل ہوئیں۔ ان میں پسند کی شادی کرنے پر ایک 15 سالہ لڑکی کو اس کے نانا نے قتل کیا جب کہ اسی روز لانڈھی میں دیور نے بھابی کو شک کی بنا پر قتل کیا۔

جولائی میں پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو کراچی کے علاقے منگھوپیر میں قتل کیا گیا تھا۔ اس واردات کو پولیس نے غیرت کے نام پر قتل قرار دیا تھا۔

لیاری میں قتل کی واردات میں ملزم بلال نے اسے غیرت کے نام پر قتل ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ اس پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ایچ آر سی پی سے منسلک محقق سیدہ ندا تنویر کا کہنا تھا کہ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل پدر شاہی اصولوں کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں۔ یہ قتل وہاں ہوتے ہیں جہاں خواتین کی خود مختاری کو خاندانی عزت کے لیے خطرہ سمجھا جائے۔ خاص طور پران علاقوں میں جہاں جرگے کے نظام پر مسلسل انحصار اور عدلیہ پر اعتماد کی کمی ہو۔

وہ کہتی ہیں کہ اب جب کہ خواتین کی معاشرے میں بڑھتی شمولیت اور فیصلہ سازی نظر آنے لگی ہے تو ایسے میں بہت سے مرد اسے قبول کرنے کی جدوجہد کرتے نظر آ رہے ہیں۔

ندا کا مزید کہنا تھا کہ گاؤں دیہات میں جو کیس ہوتے ہیں ان کی وجوہات مختلف ہیں۔ لیکن اب ایسے قتل جو شہروں میں بھی ہو رہے ہیں ان کے اسباب غیرت کو ہی سمجھا جاتا ہے۔

ان کے بقول خواتین کے خلاف بڑھتی ہوئی کارروائیوں کو ختم کرنے کے لیے جامع قانونی اصلاحات اور سماجی تبدیلیوں کے ساتھ جو خواتین کے حقوق کو تسلیم کرتی ہیں اور ان کو برقرار رکھتی ہوں بہت زیادہ اہم ہیں۔

سندھ میں غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خواتین کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’سندھ سوہائی آرگنائزیشن‘ کی بانی ڈاکٹر عائشہ دھاریجو نے بتایا کہ 2023 میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کی تعداد165 جب کہ مردوں کی تعداد 65 ہے۔ یوں پورے سال میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی تعداد 230 بنتی ہے جب کہ 2024 میں صرف چھ ماہ کے دوران اب تک سندھ بھر میں 80 خواتین کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جس میں سب سے بڑی تعداد جیکب آباد، کشمور، گھوٹکی اور سکھر سے ہے۔

عائشہ دھاریجو کا مزید کہنا تھا کہ 80 فی صد کیسوں کی ایف آئی آر درج ہی نہیں ہوتی۔ خواتین کے قتل کو غیرت کا نام دے کر جائیداد، گھریلو ناچاقی اور دیگر معاملات پر مار دیا جاتا ہے۔ ورثا یہ کام خود کرتے ہیں اور بعد میں اسے خودکشی کا رنگ دے دیتے ہیں۔ لیکن جہاں لفظ غیرت آ جائے وہاں برادری اور گاؤں میں قتل کرنے والے کو غیرت مند قرار دے دیا جاتا ہے۔

صدمے کی کیفیت برقرار

مقتولہ شمشاد بیگم کا تعلق صوابی سے تھا۔ ان کے بھائی جلاد خان کا کہنا تھا کہ انہیں کال موصول ہوئی کہ ان کی بہن کا انتقال ہوگیا ہے۔ وہ سن کر پریشان ہو گئے۔ پھر انہوں نے جب مزید تفصیلات پوچھیں اور معلوم ہوا کہ ان کی بہن، بھانجی، بہن کی نواسی اور بہو کو کسی نے قتل کیا ہے تو وہ صدمے میں چلے گئے۔

وہ صوابی سے کراچی پہنچتے ہی فلیٹ پر آئے اور اسپتال سے گھر آنے والی لاشوں کو دیکھا اور جب پتا چلا کہ ملزم بلال ہے۔ تو وہ جس صدمے کا شکار ہوئے تھے ابھی بھی اس سے نہیں نکل سکے۔

اختر جہاں اسی محلے کی رہائشی خاتون ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی اس خاندان کی خواتین کو کسی سے بھی غیر ضروری بات چیت کرتے یا کہیں آتے جاتے نہیں دیکھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلال خود کو بچانے اور اچھا نظر آنے کے لیے گھر کی عورتوں کے کردار کو مشکوک بنا رہا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچ رہا کہ اس کے ہاتھوں کتنی زندگیاں اور گھر اجڑ گئے۔ اگر اسے ماں، بہن سے کوئی اختلاف تھا بھی، تو بات چیت سے حل کرتا۔ لیکن قتل کردینا یہ بتاتا کہ اسے اپنے گھر کی عورتوں سے کتنی نفرت تھی۔

انہوں نے کہا کہ جب سے یہ واقعہ دیکھا ہے محلے کی عورتیں یہی بات کر رہی ہیں کہ اگر کسی گھر میں جھگڑے کی آواز آئے، تو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، محلے داروں کو بھی پوچھنا چاہیے۔

ان کے بقول ہم جسے معمول کی لڑائی، ذاتی معاملہ سمجھ کر ٹالتے رہے وہ کیا سے کیا ہو گیا آج نظر آ رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG