بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسند کمانڈر برہان وانی کی برسی پر جمعرات کو جزوی ہڑتال کی گئی جب کہ حکام کا کہنا ہے کہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب مختلف جھڑپوں میں چار عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ برہان وانی کو جولائی 2016 میں ایک جھڑپ کے دوران اُن کے دو ساتھیوں کے ہمراہ ہلاک کر دیا گیا تھا۔
برہانی وانی کی ہلاکت کے بعد بھارتی کشمیر میں بڑے پیمانے پر ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ بعض ماہرین کا کہنا تھا کہ اس واقعے نے کشمیر میں مزاحمتی تحریک کو ایک نئی جلا بخشی ہے۔
البتہ، اب حکام کا دعویٰ ہے کہ بھارتی کشمیر میں مزاحمتی تحریک کمزور پڑ چکی ہے اور مختلف کارروائیوں میں سیکڑوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
سیکیورٹی حکام کے مطابق جتنی تیزی سے برہان وانی کی ہلاکت کے بعد نوجوان عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہوئے تھے اتنی ہی تیزی سے سیکیورٹی فورسز نے ان کا صفایا کر دیا۔
پولیس کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس عرصے کے دوران 1200 سے زیادہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جن میں چار درجن کے قریب اہم کمانڈر بھی شامل ہیں۔
مزاحمتی تحریک کیا واقعی کمزور ہو رہی ہے؟
بھارت کے وزیرِ داخلہ امت شاہ نے حال ہی میں کہا تھا کہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی اور دہشت گردی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہیں جس کا سارا کریڈٹ مودی حکومت کو جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ سیکیورٹی فورسز کی بھی کامیابی ہے۔
بھارتی کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ کہتے ہیں کہ سیکیورٹی فورسز کو عسکریت پسندوں پر پے در پے کامیابیاں مل رہی ہیں اور اُن کے بقول جموں و کشمیر میں اس وقت جو دو، ڈھائی سو عسکریت پسند موجود ہیں وہ بھی انتشار کا شکار ہیں اور سیکوررٹی فورسز سے بچنے کے لیے ادھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔
بھارت کے سیاسی حلقوں میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھارتی کشمیر کی سیاست نے جو رُخ اختیار کر لیا تھا، بظاہر اسی وجہ سے بھارتی حکومت نے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرتے ہوئے آرٹیکل 370 واپس لیا۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئی دہلی حکومت کی جانب سے بھارتی کشمیر کو یونین میں ضم کرنے کے اقدامات کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے اور یہ ایک لحاظ سے مودی حکومت کی ناکامی ہے۔
تجزیہ کاروں کے بقول یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم اُسی کشمیری قیادت کو اپنے گھر بلا کر اُن سے مذاکرات کر رہے ہیں جنہیں پانچ اگست 2019 کے اقدامات کے بعد گرفتار یا نظر بند کر دیا گیا تھا۔
یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر شیخ شوکت حسین کہتے ہیں کہ "برہان وانی کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں جو صورتِ حال پیدا ہوئی اُس نے بھارتی حکومت میں عدم تحفظ کو جنم دیا اور وہ ایک کے بعد دوسرے سخت اقدامات اٹھانے لگی۔
اُن کے بقول پانچ اگست کے اقدامات کے بعد بھارتی حکومت نے صورتِ حال معمول پر آنے کے جو دعوے کیے وہ بظاہر غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ بلکہ حکومت بیک فٹ پر آ گئی ہے اور ایسے لوگوں سے بات چیت کر رہی ہے جس سے وہ بات کرنے کی بھی روادار نہیں تھی۔
بھارتی حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ کشمیر میں صورتِ حال اب معمول پر آ چکی ہے اور پانچ اگست 2019 کے اقدامات کشمیری عوام کی بہتری کے لیے کیے گئے تھے۔
بھارتی حکام وقتاً فوقتاً مختلف ممالک کے سفارت کاروں کو بھی کشمیر کے دورے کراتے رہتے ہیں۔