برما میں جمہوریت کی سرگرم کارکن آنگ سان سوچی اِن دِنوں امریکہ کے 17 روزہ دورے پر ہیں۔
دورے کے پانچویں روز، اُنھوں نے ہفتے کو نیو یارک کے ایک کالج میں طلبا سے خطاب کیا۔
’وائس آف امریکہ‘ کی نامہ نگار کیرولین پریسوتی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ برمی نژاد امریکی چھ گھنٹوں سے زیادہ دیر تک قطار میں لگے رہے، تاکہ وہ اپنی ہیروئن سے مل سکیں جِن کو وہ پیار سے ’مومی سو‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
جمہوریت کی وکیل آنگ سان سو چی کے لیے اُن کے دعائیہ کلمات تھے، ’آپ خوش و خورم رہیں‘۔
فوجی حکومت نے اُنھیں تقریباً 19سال تک گھر میں نظربند کیے رکھا، اور وہ دو برس قبل رہا ہوئی ہیں۔ برما کی متنوع نسلی تاریخ پُر تشدد تنازعات کا باعث بھی رہی ہے۔ تاہم، یہاں پر اُنھیں مختلف نسلی گروپوںٕ نے تحائف پیش کیے، اور اُنھوں نے جواباً اُنھیں مشوروں سے نوازا۔
اُنھوں نے نصیحت کی کہ تنازع پر ذہن مرکوزکرنے کےبجائے آپ کو مفاہمت پر دھیان دیناچاہیئے۔
مفاہمت کا لفظ برما پر بالکل نہیں جچتا ، کیونکہ یہاں شفافیت کا فقدان رہا ہے اور مفاہمت کا تصورنسبتاً نیا ہے۔ اِس کی مناسب منظر کشی "They Call It Myanmar"
نامی ایک ڈاکیومنٹری فلم میں کی گئی ہے۔ اِس سلسلے میں فلم ساز رابرٹ لبرمین نے چار سال برما میں گزارے جہاں اُنھوں نے آنگ سان سو چی کو انٹرویو کیا۔
رابرٹ لبرمین کے بقول، شاید اِس وقت وہ ایک واحد شخصیت ہیں جو اِس ملک کو متحد رکھ سکتی ہیں۔
آج یونی ورسٹی کیمپس کے اِس دوسرے مقام پر آنگ سان سوچی برما کے طلبا سےمخاطب ہوئیں۔ اُنھوں نے اُن سے کہا کہ آپ کو اپنی آزادی کی قدر کرنی چاہیئے۔
اُن کے بقول، میں امید کرتی ہوں کہ آپ کو اِس بات کا بخوبی ادراک ہوگاکہ برما میں انسانی حقوق اورجمہوریت کے لیے کی گئی
جدوجہد کیا معنی رکھتی ہے۔ آپ پر یہ حقیق مکمل طور پر آشکار نہیں ہوگی جب تک کہ آپ بنفس نفیس اِس کا مشاہدہ نہ کرلیں۔ پھر کہیں آپ کو پتا چلے کا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔
جب اگلے انتخابات ہوں گے، آنگ سان سوچی 70برس کی ہوچکی ہوں گی۔ وہ صدر نہیں بن سکتیں کیونکہ برما کے آئین میں اس بات کی گنجائش نہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ برما کا نوجوان اِس قابل ہو کہ وہ برما کے مستقبل کا فیصلہ کرسکے۔ اِسی گروپ کو یہ آزادی ہے کہ وہ قانون سازوں سے سوال کریں اور تبدیلی کا مطالبہ کرسکیں، یہ ایسا معاملہ ہے جس کی پاداش میں اُنھیں اپنے ہی ملک میں بار بار قید کیا گیا۔
دورے کے پانچویں روز، اُنھوں نے ہفتے کو نیو یارک کے ایک کالج میں طلبا سے خطاب کیا۔
’وائس آف امریکہ‘ کی نامہ نگار کیرولین پریسوتی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ برمی نژاد امریکی چھ گھنٹوں سے زیادہ دیر تک قطار میں لگے رہے، تاکہ وہ اپنی ہیروئن سے مل سکیں جِن کو وہ پیار سے ’مومی سو‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
جمہوریت کی وکیل آنگ سان سو چی کے لیے اُن کے دعائیہ کلمات تھے، ’آپ خوش و خورم رہیں‘۔
فوجی حکومت نے اُنھیں تقریباً 19سال تک گھر میں نظربند کیے رکھا، اور وہ دو برس قبل رہا ہوئی ہیں۔ برما کی متنوع نسلی تاریخ پُر تشدد تنازعات کا باعث بھی رہی ہے۔ تاہم، یہاں پر اُنھیں مختلف نسلی گروپوںٕ نے تحائف پیش کیے، اور اُنھوں نے جواباً اُنھیں مشوروں سے نوازا۔
اُنھوں نے نصیحت کی کہ تنازع پر ذہن مرکوزکرنے کےبجائے آپ کو مفاہمت پر دھیان دیناچاہیئے۔
مفاہمت کا لفظ برما پر بالکل نہیں جچتا ، کیونکہ یہاں شفافیت کا فقدان رہا ہے اور مفاہمت کا تصورنسبتاً نیا ہے۔ اِس کی مناسب منظر کشی "They Call It Myanmar"
نامی ایک ڈاکیومنٹری فلم میں کی گئی ہے۔ اِس سلسلے میں فلم ساز رابرٹ لبرمین نے چار سال برما میں گزارے جہاں اُنھوں نے آنگ سان سو چی کو انٹرویو کیا۔
رابرٹ لبرمین کے بقول، شاید اِس وقت وہ ایک واحد شخصیت ہیں جو اِس ملک کو متحد رکھ سکتی ہیں۔
آج یونی ورسٹی کیمپس کے اِس دوسرے مقام پر آنگ سان سوچی برما کے طلبا سےمخاطب ہوئیں۔ اُنھوں نے اُن سے کہا کہ آپ کو اپنی آزادی کی قدر کرنی چاہیئے۔
اُن کے بقول، میں امید کرتی ہوں کہ آپ کو اِس بات کا بخوبی ادراک ہوگاکہ برما میں انسانی حقوق اورجمہوریت کے لیے کی گئی
جدوجہد کیا معنی رکھتی ہے۔ آپ پر یہ حقیق مکمل طور پر آشکار نہیں ہوگی جب تک کہ آپ بنفس نفیس اِس کا مشاہدہ نہ کرلیں۔ پھر کہیں آپ کو پتا چلے کا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔
جب اگلے انتخابات ہوں گے، آنگ سان سوچی 70برس کی ہوچکی ہوں گی۔ وہ صدر نہیں بن سکتیں کیونکہ برما کے آئین میں اس بات کی گنجائش نہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ برما کا نوجوان اِس قابل ہو کہ وہ برما کے مستقبل کا فیصلہ کرسکے۔ اِسی گروپ کو یہ آزادی ہے کہ وہ قانون سازوں سے سوال کریں اور تبدیلی کا مطالبہ کرسکیں، یہ ایسا معاملہ ہے جس کی پاداش میں اُنھیں اپنے ہی ملک میں بار بار قید کیا گیا۔