بنکاک —
برما میں حزبِ اختلاف کی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی یا (این ایل ڈی) گزشتہ سال پارلیمینٹ میں نشستیں جیتنے کے بعد مارچ میں پہلی بار اپنی پہلی کانگریس کا انعقاد کر رہی ہے۔
ناقدین کہتے ہیں کہ این ایل ڈی اور اس کی لیڈر آنگ سان سوچی کو ایک بار پھر اپنی پارٹی کے اصولوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ایک سال کے عرصے میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ این ایل ڈی نے حکومت کو چیلنج کرنے کی کوشش کی ہو۔
انتخاب میں سابق سیاسی قیدی آنگ سان سوچی کی تاریخی فتح سے یہ اُمید بندھی تھی کہ وہ اور نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی برما میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کریں گی۔
لیکن برما کی مسلمان روہنگیا اقلیت کے معاملے میں جسے شہریت کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے، انھوں نے رائے عامہ کا ساتھ دیا اور کاچن باغیوں کے خلاف فوج کی جارحیت کی مذمت سے بھی پرہیز کیا۔ ناقدین کہتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے اصولوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ایشیا ڈائریکٹر فل رابرٹسن کہتے ہیں کہ آنگ سان سوچی اب حقوق کی علمبردار نہیں رہیں بلکہ سیاستداں بن گئی ہیں۔
’’انھوں نے آخری بار جو یہ تبصرہ کیا تھا کہ وہ اس معاملے میں دخل نہیں دے سکتیں جب تک انہیں حکومت ایسا کرنے کی دعوت نہ دے، اور یہ کہ وہ جس پارلیمانی کمیٹی میں شامل ہیں اس کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اس قسم کے مسائل میں الجھے، ایسی حیلہ سازی ہے جس کی توقع آپ کسی دوسرے درجے کے سیاستداں سے تو کر سکتے ہیں، نوبیل انعام یافتہ شخصیت سے نہیں کر سکتے۔‘‘
پارلیمینٹ میں جس پر فوج کا غلبہ ہے، این ایل ڈی کے قانون سازوں کی تعداد دس فیصد سے بھی کم ہے۔ اتنے کم ووٹوں سے اکثریت کو جسے فوج کی حمایت حاصل ہے، چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ انھوں نے عوام میں اپنی مقبولیت کو تبدیلی لانے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال نہیں کیا ہے۔
علاقائی سیاسی تجزیہ کار ٹٹ اوہنان پونگسوٹیرکھ کہتے ہیں کہ خطرہ یہ ہے کہ این ایل ڈی کہیں اپنی آزادانہ حیثیت نہ کھو بیٹھے۔ ان کے مطابق ’’مصالحت اور سمجھوتہ کرنا تو سمجھ میں آتا ہے ۔ لیکن کسی گروپ کا حصہ بن جانا بالکل مختلف با ت ہے ۔ میرے خیال میں انہیں اور این ایل ڈی کو بہت محتاط رہنا چاہیئے کہ وہ حکومت کے ساتھیوں ، فوج اور صدر کی ٹیم اور ان کی حکومت کا حصہ بن کر نہ رہ جائیں۔ توازن قائم رکھنا آسان نہیں۔‘‘
این ایل ڈی کے ترجمان نیان ون اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ پارٹی، حکام کو پر زور طریقے سے چیلنج کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ضمنی انتخاب میں حصہ لینے سے لے کر اب تک، این ایل ڈی حکومت کی پالیسیوں کو چیلنج کرتی رہی ہے ۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ این ایل ڈی نے آئین میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔ موجودہ حکومت کے لیے سب سے اہم چیز یہی ہے ۔ این ایل ڈی اپنے مقاصد حاصل کرنے کے طریقے معلوم کر رہی ہے ۔
این ایل ڈی کے اندر بھی اقتدار کی کشمکش جاری ہے۔ پرانے اور نئے ارکان میں اقتدار کی تقسیم کے سوال پر اختلافات موجود ہیں۔
وسطی ماین گن کے قصبے میں، سینکڑوں لوگوں نے پارٹی کے آفس پر مظاہرہ کیا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن نے پارٹی کے داخلی انتخاب میں دھاندلی کی ہے۔
احتجاج کرنے والوں کے لیڈر کوکو آون کہتے ہیں کہ کمیشن نے 7,000 نوجوان ارکان کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ این ایل ڈی اپنے راستے سے بھٹک گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے کمیشن کی زیادتیوں کے بارے میں سینٹرل کمیٹی کے عہدے داروں سے شکایت کی ہے ۔ انھوں نے کمیشن کو تحلیل کر دیا ہے۔ تا ہم انھوں نے کمیشن کے دھاندلی پر مبنی انتخابی نتائج کی تائید کر دی ہے۔‘‘
این ایل ڈی کے ترجمان نیان ون نے اس تنازعے کو آپس کی چپقلش کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ پارٹی کی کانگریس این ایل ڈی کو زیادہ جمہوری بنانے اور تعلیم یافتہ، نوجوان اور خواتین لیڈروں کو منتخب کرنے پر توجہ دے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس کے نتیجے میں پارٹی کے بعض اصولوں کا از سرِ نو جائزہ لینا پڑے۔
ناقدین کہتے ہیں کہ این ایل ڈی اور اس کی لیڈر آنگ سان سوچی کو ایک بار پھر اپنی پارٹی کے اصولوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ایک سال کے عرصے میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ این ایل ڈی نے حکومت کو چیلنج کرنے کی کوشش کی ہو۔
انتخاب میں سابق سیاسی قیدی آنگ سان سوچی کی تاریخی فتح سے یہ اُمید بندھی تھی کہ وہ اور نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی برما میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کریں گی۔
لیکن برما کی مسلمان روہنگیا اقلیت کے معاملے میں جسے شہریت کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے، انھوں نے رائے عامہ کا ساتھ دیا اور کاچن باغیوں کے خلاف فوج کی جارحیت کی مذمت سے بھی پرہیز کیا۔ ناقدین کہتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے اصولوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ایشیا ڈائریکٹر فل رابرٹسن کہتے ہیں کہ آنگ سان سوچی اب حقوق کی علمبردار نہیں رہیں بلکہ سیاستداں بن گئی ہیں۔
’’انھوں نے آخری بار جو یہ تبصرہ کیا تھا کہ وہ اس معاملے میں دخل نہیں دے سکتیں جب تک انہیں حکومت ایسا کرنے کی دعوت نہ دے، اور یہ کہ وہ جس پارلیمانی کمیٹی میں شامل ہیں اس کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اس قسم کے مسائل میں الجھے، ایسی حیلہ سازی ہے جس کی توقع آپ کسی دوسرے درجے کے سیاستداں سے تو کر سکتے ہیں، نوبیل انعام یافتہ شخصیت سے نہیں کر سکتے۔‘‘
پارلیمینٹ میں جس پر فوج کا غلبہ ہے، این ایل ڈی کے قانون سازوں کی تعداد دس فیصد سے بھی کم ہے۔ اتنے کم ووٹوں سے اکثریت کو جسے فوج کی حمایت حاصل ہے، چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ انھوں نے عوام میں اپنی مقبولیت کو تبدیلی لانے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال نہیں کیا ہے۔
علاقائی سیاسی تجزیہ کار ٹٹ اوہنان پونگسوٹیرکھ کہتے ہیں کہ خطرہ یہ ہے کہ این ایل ڈی کہیں اپنی آزادانہ حیثیت نہ کھو بیٹھے۔ ان کے مطابق ’’مصالحت اور سمجھوتہ کرنا تو سمجھ میں آتا ہے ۔ لیکن کسی گروپ کا حصہ بن جانا بالکل مختلف با ت ہے ۔ میرے خیال میں انہیں اور این ایل ڈی کو بہت محتاط رہنا چاہیئے کہ وہ حکومت کے ساتھیوں ، فوج اور صدر کی ٹیم اور ان کی حکومت کا حصہ بن کر نہ رہ جائیں۔ توازن قائم رکھنا آسان نہیں۔‘‘
این ایل ڈی کے ترجمان نیان ون اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ پارٹی، حکام کو پر زور طریقے سے چیلنج کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ضمنی انتخاب میں حصہ لینے سے لے کر اب تک، این ایل ڈی حکومت کی پالیسیوں کو چیلنج کرتی رہی ہے ۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ این ایل ڈی نے آئین میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔ موجودہ حکومت کے لیے سب سے اہم چیز یہی ہے ۔ این ایل ڈی اپنے مقاصد حاصل کرنے کے طریقے معلوم کر رہی ہے ۔
این ایل ڈی کے اندر بھی اقتدار کی کشمکش جاری ہے۔ پرانے اور نئے ارکان میں اقتدار کی تقسیم کے سوال پر اختلافات موجود ہیں۔
وسطی ماین گن کے قصبے میں، سینکڑوں لوگوں نے پارٹی کے آفس پر مظاہرہ کیا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن نے پارٹی کے داخلی انتخاب میں دھاندلی کی ہے۔
احتجاج کرنے والوں کے لیڈر کوکو آون کہتے ہیں کہ کمیشن نے 7,000 نوجوان ارکان کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ این ایل ڈی اپنے راستے سے بھٹک گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے کمیشن کی زیادتیوں کے بارے میں سینٹرل کمیٹی کے عہدے داروں سے شکایت کی ہے ۔ انھوں نے کمیشن کو تحلیل کر دیا ہے۔ تا ہم انھوں نے کمیشن کے دھاندلی پر مبنی انتخابی نتائج کی تائید کر دی ہے۔‘‘
این ایل ڈی کے ترجمان نیان ون نے اس تنازعے کو آپس کی چپقلش کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ پارٹی کی کانگریس این ایل ڈی کو زیادہ جمہوری بنانے اور تعلیم یافتہ، نوجوان اور خواتین لیڈروں کو منتخب کرنے پر توجہ دے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس کے نتیجے میں پارٹی کے بعض اصولوں کا از سرِ نو جائزہ لینا پڑے۔