واشنگٹن —
برما کی حزب اختلاف کی راہنما، آنگ سان سوچی نے کہا ہے کہ وہ 2015ء میں ملک کی صدر بننے کی خواہش مند ہیں۔ یہ قومی انتخابات عشروں تک فوجی حکمرانی کے بعد جمہوریت کی طرف لوٹنے کے عبوری دور کا ایک حصہ ہوں گے۔
امن کی نوبیل انعام یافتہ جمعرات کے روز برما کےانتظامی دارالحکومت، نپیتا میں منعقد ہونے والے ’ورلڈ اکانامک فورم‘ میں تقریر رہی تھیں۔ سیاسی حوالے سے، یہ اُن کا ایک واضح بیان ہے۔
سوچی کے بقول، ’میں چاہتی ہوں کہ صدر کا انتخاب لڑوں۔ یہ کہنے میں مجھے کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔ اگر میں گول مول سی بات کروں، تو وہ ایمانداری پر مبنی بات نہ ہوگی‘۔
ایک طویل مدت سے حکمرانی کرنے والی فوجی جنتا نے 2011ء میں اقتدار چھوڑا ،اور اس طرح، ایک سویلین حکومت تشکیل پائی جس نے آنگ سان سوچی اور اُن کی جماعت، ’نیشنل لیگ فور ڈیموکریسی‘ کو 2012ء کے پارلیمانی انتخابات کے ضمنی چناؤ میں حصہ لینے کی اجازت دی۔ اِس سے قبل، فوجی اقتدار کے دوران، 15برس تک وہ گھر میں نظربند رہیں۔
تاہم، فوج کی طرف سے تحریر کردہ برما کے آئین میں فی الواقع طور پر اُنھیں صدارت کے عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا، یہ کہتے ہوئے کہ اِس عہدے پر کوئی ایسا شخص فائز نہیں ہوسکتا جِس کا کوئی فرد یا بچہ غیر ملکی شہری ہو۔ آنگ سان سوچی کے دو بیٹے اور سابق شوہر مائیکل آریز برطانوی شہری ہیں۔ آئین کی رو سے کوئی شخص جو فوجی تجربہ نہ رکھتا ہو ملک کا صدر نہیں بن سکتا، جس معیار پر حزب اختلاف کی لیڈر پوری نہیں اترتیں۔
فورم میں نامہ نگاروں سے گفتگو میں آنگ سان سوچی نے کہا کہ کلیدی آئینی شقوں میں ترامیم تب ہی ہو سکتی ہیں جب پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے 75فی صد ارکان کی حمایت حاصل ہے، جن میں سے ایک تہائی نمائندوں کا تعلق فوج سے ہوتا ہے جن کا انتخاب نہیں ہوتا۔
اُنھوں نے کہا کہ بعدازاں اِن ترامیم کی منظوری کے لیے ریفرینڈم ہوگا، جس میں اہل رائے دہندگان میں سے 50فی صد کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔
امن کی نوبیل انعام یافتہ جمعرات کے روز برما کےانتظامی دارالحکومت، نپیتا میں منعقد ہونے والے ’ورلڈ اکانامک فورم‘ میں تقریر رہی تھیں۔ سیاسی حوالے سے، یہ اُن کا ایک واضح بیان ہے۔
سوچی کے بقول، ’میں چاہتی ہوں کہ صدر کا انتخاب لڑوں۔ یہ کہنے میں مجھے کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔ اگر میں گول مول سی بات کروں، تو وہ ایمانداری پر مبنی بات نہ ہوگی‘۔
ایک طویل مدت سے حکمرانی کرنے والی فوجی جنتا نے 2011ء میں اقتدار چھوڑا ،اور اس طرح، ایک سویلین حکومت تشکیل پائی جس نے آنگ سان سوچی اور اُن کی جماعت، ’نیشنل لیگ فور ڈیموکریسی‘ کو 2012ء کے پارلیمانی انتخابات کے ضمنی چناؤ میں حصہ لینے کی اجازت دی۔ اِس سے قبل، فوجی اقتدار کے دوران، 15برس تک وہ گھر میں نظربند رہیں۔
تاہم، فوج کی طرف سے تحریر کردہ برما کے آئین میں فی الواقع طور پر اُنھیں صدارت کے عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا، یہ کہتے ہوئے کہ اِس عہدے پر کوئی ایسا شخص فائز نہیں ہوسکتا جِس کا کوئی فرد یا بچہ غیر ملکی شہری ہو۔ آنگ سان سوچی کے دو بیٹے اور سابق شوہر مائیکل آریز برطانوی شہری ہیں۔ آئین کی رو سے کوئی شخص جو فوجی تجربہ نہ رکھتا ہو ملک کا صدر نہیں بن سکتا، جس معیار پر حزب اختلاف کی لیڈر پوری نہیں اترتیں۔
فورم میں نامہ نگاروں سے گفتگو میں آنگ سان سوچی نے کہا کہ کلیدی آئینی شقوں میں ترامیم تب ہی ہو سکتی ہیں جب پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے 75فی صد ارکان کی حمایت حاصل ہے، جن میں سے ایک تہائی نمائندوں کا تعلق فوج سے ہوتا ہے جن کا انتخاب نہیں ہوتا۔
اُنھوں نے کہا کہ بعدازاں اِن ترامیم کی منظوری کے لیے ریفرینڈم ہوگا، جس میں اہل رائے دہندگان میں سے 50فی صد کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔