واشنگٹن —
گزشتہ کئی دہائیوں سے فوجی اقتدار کا شکار برما کی قسمت بدل رہی ہے اور سیاحت ایک صنعت کے طور پر فروغ پارہی ہے۔
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق برما آنے والے سیاحوں کی سالانہ تعداد میں 30 فی صد اضافہ ہوا ہے جس کے پیشِ نظر مختلف کاروباری سرگرمیاں بھی فروغ پارہی ہیں۔ رواں برس کے ابتدائی سات ماہ میں تین لاکھ غیر ملکی سیاحوں نے برما کا رخ کیا ہے۔
اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں سیاحوں کی اس بڑھتی ہوئی دلچسپی کے پیشِ نظر برمی حکومت ملک میں ایک نیا بین الاقوامی ہوائی اڈہ تعمیر کرنے پر غور کر رہی ہے۔
برما آنے والے سیاحوں میں سرِ فہرست تھائی لینڈ کے باشندے ہیں جن کے بعد جاپان، چین اور جنوبی کوریا کے شہری اپنی چھٹیاں منانے یہاں آتے ہیں۔ جب کہ یورپی باشندوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد بھی ہر سال برما کارخ کرتی ہے۔
برما نے 2014ء میں علاقائی ممالک کی تنظیم 'ایسوسی ایشن آف سائوتھ ایسٹ ایشین نیشنز (آسیان)' کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کی پیش کش کر رکھی ہے۔ اور حکام کو امید ہے کہ اس وقت تک برما آنے والے سیاحوں کی سالانہ تعداد 10 لاکھ تک بڑھ جائے گی۔
اس وقت برما کے ہوٹلوں میں 25 ہزار کمرے موجود ہیں جن میں سے آٹھ ہزار سے زائد کمروں والے ہوٹل اقتصادی سرگرمیوں کے مرکز اور سابق دارالحکومت رنگون میں ہیں۔
بادی النظر میں تو یہ خاصی بڑی تعداد ہے لیکن سیاحوں اور کاروبار کے سلسلے میں برما آنے والے افراد کی تعداد میں روز بروزاضافے نے ٹور آپریٹرز کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔
برما کے نائب وزیرِ برائے سیاحت ہٹی آنگ کو اس مسئلے کا ادراک ہے۔ ان کے بقول جہاں ایک جانب ملک میں سیاحوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی خوش آئند ہے وہیں اس نے کئی چیلنجز بھی پیدا کردیے ہیں جن میں سرِ فہرست رہائش سمیت بنیادی سہولیات کی موثر فراہمی اور بنیادی ڈھانچےکی ترقی ہے۔
برما کی حکومت ملک میں ایک نیا بین الاقوامی ہوائی اڈہ تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جو رنگون شہر سے متصل ہوگا۔ ساتھ ہی شہر میں رہائشی عمارات کو ہوٹلوں میں تبدیل کرنے کا عمل بھی جاری ہے اور امکان ہے کہ رواں برس کے اختتام تک مزید 500 کمروں کی گنجائش رکھنے والے ہوٹل سیاحوں کو دستیاب ہوں گے۔
برما میں سیاحت کو فروغ دینے کی غرض سے 'ایشیائی ترقیائی بینک' بھی ایک ماسٹر پلان تیار کر رہا ہے جب کہ کئی علاقائی ایئر لائنز بھی برما کے لیے اپنی پروازوں میں اضافہ کر رہی ہیں۔
برما کی حکومت کا کہنا ہے کہ سیاحت کے متعلق اس کی پالیسی کے نتیجے میں غربت کو کم کرنے ، خواتین کو بااختیار بنانے اور مقامی آبادیوں کو معاشی ترقی کے مواقع فراہم کرنے میں مدد ملے گی جس کے نتیجے میں برما پر ترقی کے دروازے کھلیں گے۔
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق برما آنے والے سیاحوں کی سالانہ تعداد میں 30 فی صد اضافہ ہوا ہے جس کے پیشِ نظر مختلف کاروباری سرگرمیاں بھی فروغ پارہی ہیں۔ رواں برس کے ابتدائی سات ماہ میں تین لاکھ غیر ملکی سیاحوں نے برما کا رخ کیا ہے۔
اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں سیاحوں کی اس بڑھتی ہوئی دلچسپی کے پیشِ نظر برمی حکومت ملک میں ایک نیا بین الاقوامی ہوائی اڈہ تعمیر کرنے پر غور کر رہی ہے۔
برما آنے والے سیاحوں میں سرِ فہرست تھائی لینڈ کے باشندے ہیں جن کے بعد جاپان، چین اور جنوبی کوریا کے شہری اپنی چھٹیاں منانے یہاں آتے ہیں۔ جب کہ یورپی باشندوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد بھی ہر سال برما کارخ کرتی ہے۔
برما نے 2014ء میں علاقائی ممالک کی تنظیم 'ایسوسی ایشن آف سائوتھ ایسٹ ایشین نیشنز (آسیان)' کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کی پیش کش کر رکھی ہے۔ اور حکام کو امید ہے کہ اس وقت تک برما آنے والے سیاحوں کی سالانہ تعداد 10 لاکھ تک بڑھ جائے گی۔
اس وقت برما کے ہوٹلوں میں 25 ہزار کمرے موجود ہیں جن میں سے آٹھ ہزار سے زائد کمروں والے ہوٹل اقتصادی سرگرمیوں کے مرکز اور سابق دارالحکومت رنگون میں ہیں۔
بادی النظر میں تو یہ خاصی بڑی تعداد ہے لیکن سیاحوں اور کاروبار کے سلسلے میں برما آنے والے افراد کی تعداد میں روز بروزاضافے نے ٹور آپریٹرز کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔
برما کے نائب وزیرِ برائے سیاحت ہٹی آنگ کو اس مسئلے کا ادراک ہے۔ ان کے بقول جہاں ایک جانب ملک میں سیاحوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی خوش آئند ہے وہیں اس نے کئی چیلنجز بھی پیدا کردیے ہیں جن میں سرِ فہرست رہائش سمیت بنیادی سہولیات کی موثر فراہمی اور بنیادی ڈھانچےکی ترقی ہے۔
برما کی حکومت ملک میں ایک نیا بین الاقوامی ہوائی اڈہ تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جو رنگون شہر سے متصل ہوگا۔ ساتھ ہی شہر میں رہائشی عمارات کو ہوٹلوں میں تبدیل کرنے کا عمل بھی جاری ہے اور امکان ہے کہ رواں برس کے اختتام تک مزید 500 کمروں کی گنجائش رکھنے والے ہوٹل سیاحوں کو دستیاب ہوں گے۔
برما میں سیاحت کو فروغ دینے کی غرض سے 'ایشیائی ترقیائی بینک' بھی ایک ماسٹر پلان تیار کر رہا ہے جب کہ کئی علاقائی ایئر لائنز بھی برما کے لیے اپنی پروازوں میں اضافہ کر رہی ہیں۔
برما کی حکومت کا کہنا ہے کہ سیاحت کے متعلق اس کی پالیسی کے نتیجے میں غربت کو کم کرنے ، خواتین کو بااختیار بنانے اور مقامی آبادیوں کو معاشی ترقی کے مواقع فراہم کرنے میں مدد ملے گی جس کے نتیجے میں برما پر ترقی کے دروازے کھلیں گے۔