ایسے وقت جب بودھوں اور مسلمان آبادی کے درمیان تناؤ کا جائزہ لینے کے لیے اقوام متحدہ کے ایلچی نے دورے کا آغاز کردیا ہے، حکام کا کہنا ہے کہ برما کی مغربی رکھائین ریاست میں 28افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
رکھائینو اور روہنگا نسلوں کے مابین چھڑنے والے نسلی فسادات کے نتیجے میں فریقین کی اموات ہوئی ہیں اور املاک کو نقصان پہنچا ہے۔ عہدے داروں کا کہنا ہے کہ لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے، 2500افراد بے گھر ہوئے ہیں، جب کہ خوراک اور پانی کی رسد تیزی سے کم ہورہی ہے۔
اقوام متحدہ کے حکام نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ سکریٹری جنرل بان کی مون کے برما سے متعلق مشیر وجے نمبیار نے بدھ کے روز رکھائین کا دورہ کیا۔
نمبیار نے مونگ دا شہر اور ریاست کے دارالحکومت ستِوے کا دروہ کرکے ریاستی حکام سے ملاقات کی ہے۔ اُن کے دورے میں برما کے سرحدی امور کے وزیر تھین ہتے اور رنگون کے 10مسلمان راہنما اُن کے ہمراہ تھے۔
یہ دورہ ایسے وقت کیا گیا جب بنگلہ دیش نے روہنگا افراد کے لیے اپنی سرحد کھولنے سے متعلق اقوام متحدہ کی درخواست ٹھکرا دی تھی۔ بنگلہ دیش کی وزارت ِخارجہ نے کہا ہے کہ روہنگا نسل کے لوگوں کو، جوکہ لڑائی میں ملوث ہیں، ملک میں آنے کی اجازت دینا ملک کے بہترین مفاد میں نہیں ہے۔
برما روہنگوں کو اپنا شہری تسلیم نہیں کرتا۔
یہ فساد تین جون کو اس وقت شروع ہوا جب رکھائین میں بودھوں کے ایک جلوس نے گھات لگا کر ایک بس پر حملے کر کے10افراد کو ہلاک کردیا، جس میں روہنگا مسلمان مسافر سوار تھے، جس کا بظاہر سبب اِس سے قبل تین مسلمانوں کی طرف سے ایک بودھ خاتون پر جنسی زیادتی کا بدلہ لینا معلوم ہوتا ہے۔
صدر تھین سین نے ہنگامی حالت کا اعلان کرتے ہوئے امن کے قیام کے لیے رکھائین کی طرف فوج روانہ کر دی ہے۔