صحت کا کوئی مول نہیں۔ لیکن، قدرت کے اس انمول تحفے کو ہم اکثر نادانستہ طور پر تلخ تجربات کی نظر کر دیتے ہیں۔ سیلف میڈیکیشن کا شوق رکھنے والوں میں ان دنوں انٹرنیٹ کے ذریعے خریدی جانے والی وٹامنز، منرلز، روایتی دوائیں اور ہربل ادویات کی خریداری کا طریقہ مقبول ہوتا جا رہا ہے۔
تقریباً ایک دہائی قبل کسی بھی حکومت کے لیےغیر قانونی دواؤں کے پھیلاؤ پر قابو پانا آسان تھا، جب سال بھر میں صرف چند دواؤں کو قانونی طور پر مارکیٹ میں بیچنے کا لائسنس دیا جاتا تھا۔ لیکن، حالیہ برسوں میں انٹرنیٹ کی بہت سی ویب سائٹس پر غیر لائسنس یافتہ ادویات کے ساتھ ساتھ ایسی دواؤں کی بھی فروخت کا عمل جاری ہے جن کے استعمال پر پابندی عائد ہے۔
یورپی یونین سیفٹی اینڈ ہیلتھ کے ماہرین کے مطابق سال 2011 میں یورپ میں آن لائن فروخت کی جانے والی 49 بغیر لائسنس یافتہ تھیں، جبکہ سال 2012میں ان کی تعداد 73 ہو گئی، جبکہ سینکڑوں ایسی ادویات فروخت کی جارہی ہیں جن کی خرید و فروخت پر محکمہ صحت کی جانب سے پابندی عائد ہے۔
ایک میڈیکل رپورٹ کے مطابق، برطانیہ میں ہر سال ہزاروں افراد انٹرنیٹ پر بیچی جانے والی مہلک دواؤں اور ہیلتھ پراڈکٹ کے استعمال کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آن لائن دواؤں کی فروخت میں اضافے کا سبب ایسے مریض بھی ہیں جو مرض کی تشخیص کے بعد خود ہی علاج کرنے کی عادت رکھتے ہیں۔ بعض ایسے مریض بھی انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہیں جنھیں ڈاکٹر سے اپنے مرض کے بارے میں بات کرنے میں جھجھک محسوس ہوتی ہے۔
دوسری جانب یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر کی بھاری فیس اور لمبے انتطار سے بچنے کے لیے بھی آن لائن دواؤں کی خریداری کی جاتی ہے۔ تاہم، لوگوں کی ایک بڑی تعداد سستی ادویات کی خریداری کے لیے ایسی ویب سائٹس کو استعمال کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، غیر معیاری اور جعلی دواؤں کے استعمال کی روک تھام کے لیےمحکمہ صحت کے قوانین غیر موثر نظر آتے ہیں، جبکہ انٹرنیٹ پر بیچی جانے والی یہ زہریلی گولیاں ہر سال ایک لاکھ افراد کی جان لے لیتی ہیں۔
انٹرنیٹ پرفروخت کی جانے والی متعدد دوائیں ایسی ہیں جنھیں ڈاکٹر کی ہدایت کے بغیر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے، کیونکہ کسی بھی دوا کا غیر ذمہ دارنہ استعمال خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
نوجوانوں میں آن لائن ہیلتھ پروڈکٹ کے غیر ضروری استعمال کے حوالے سےاب تک کئی سنگین واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ گذشتہ ماہ لیڈز میڈیکل یونیورسٹی کی ایک 23 سالہ طالبہ سارہ ہوسٹن کی موت آن لائن خریدی جانے والی(DNP) یا ڈانیٹروفینل کیپسول کی وجہ سے ہوئی جسے وہ چند ماہ سے دبلا ہونے کے لیے استعمال کر رہی تھی۔
ڈی این پی کیپسول عام طور پر باڈی بلڈنگ کرنے والوں میں بہت مقبول ہے اس دوا میں (Pesticide ) حشرات کو مارنے والے زہریلے کمیکل کی بھاری مقدار شامل ہے جسے ڈاکٹرآج سے 80 برس قبل موٹاپا کم کرنے یا جسم کی فاضل چربی پگھلانے کے لیے نسخے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
ڈی این پی اگرچہ ہیلتھ اینڈ سیفٹی قوانین کی رو سے غیر قانونی دوا کے زمرے میں شامل نہیں ہے لیکن اس کے خطرناک ضمنی اثرات کی بنا پراس کے استعمال پر پابندی عائد ہے۔
رائل فارماسیوٹیکل سوسائٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 50 فیصد برطانوی میڈیکل کمپنیوں کے گاہک انٹرنیٹ کے ذریعے دوائیں خریدتے ہیں، جبکہ ہر 7 میں سے ایک فرد کے مطابق، وہ ویب سائٹس پر صرف ایسی ادویات کی خریداری کرتے ہیں جنھیں ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر نہیں خریدا جاسکتا۔
ڈینی لی فروسٹ جن کا تعلق میڈیسن اینڈ ہیلتھ کے ادارے سے ہے کہتے ہیں کہ، 'غیر لائسنس یافتہ ادویات اور جعلی دواؤں کا نقصان ان کےفائدے سے کہیں زیادہ ہے۔ ایسی دواؤں کا استعمال صحت کے ساتھ جوا کھلینے کے مترادف ہے۔ میری گذارش ہے کہ آن لائن خریدی جانے والی ادویات اور ہیلتھ پروڈکٹ کا ستعمال بغیر ڈاکٹر کے مشورے کے نہ کریں۔'
لی کے مطابق، مریض کمپیوٹرماؤس کی چند کلک پردواؤں کی بھاری مقدار خرید سکتا ہے، جبکہ دواؤں کی صحیح مقدار کا تعین ایک ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے۔ کسی بھی دوا کا مقدار سے زیادہ یا لمبی مدت تک استعمال کرنے پر نہ صرف ضمنی اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں بلکہ مریض خود کو ان دواؤں کا عادی بنا لیتا ہے۔
کمپیوٹر پرسینکڑوں میڈیکل کمپنیوں کی ویب سائٹس موجود ہیں جہاں سےاپنی مرضی کی دوا کو سستے داموں خریدا جا سکتا ہے ان میں اینٹی ڈپریشن، ہارمونزگروتھ کی دوائیں، طاقتور پین کلر اور کینسر جیسے مرض کے علاوہ ایڈز کے علاج میں استعمال کی جانے والی انتہائی طاقت ور گولیوں کی بھی خریداری کی جا سکتی ہے۔
مثلا Sibutramineایک ایسا کمیکل جزو ہے جس پر پابندی عائد ہے یہ عام طور پر دبلا کرنے والی ادویات اور بھوک ختم کرنے والی دواؤں کے فارمولے میں شامل ہوتا ہے اس کے استعمال سے دل کے دورے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اشتہارات کے ذریعے مقبول بنائے جانے والی جعلی گولیاں اور ہیلتھ پراڈکٹ کو عام طور پر گندی لیبارٹریز میں غیر معیاری اجزا سے تیار کیا جاتا ہے۔
جعلی دواؤں کی مارکیٹ دنیا میں 50 بلین سالانہ منافع بخش صنعت ہے۔ لیکن جعلی دواؤں کی تیاری میں چوہے مارنے کا زہر، بورک ایسڈ، لیڈپینٹ، فلور ویکس، اورمرکری کے علاوہ اینٹوں کا چورا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
تقریباً ایک دہائی قبل کسی بھی حکومت کے لیےغیر قانونی دواؤں کے پھیلاؤ پر قابو پانا آسان تھا، جب سال بھر میں صرف چند دواؤں کو قانونی طور پر مارکیٹ میں بیچنے کا لائسنس دیا جاتا تھا۔ لیکن، حالیہ برسوں میں انٹرنیٹ کی بہت سی ویب سائٹس پر غیر لائسنس یافتہ ادویات کے ساتھ ساتھ ایسی دواؤں کی بھی فروخت کا عمل جاری ہے جن کے استعمال پر پابندی عائد ہے۔
یورپی یونین سیفٹی اینڈ ہیلتھ کے ماہرین کے مطابق سال 2011 میں یورپ میں آن لائن فروخت کی جانے والی 49 بغیر لائسنس یافتہ تھیں، جبکہ سال 2012میں ان کی تعداد 73 ہو گئی، جبکہ سینکڑوں ایسی ادویات فروخت کی جارہی ہیں جن کی خرید و فروخت پر محکمہ صحت کی جانب سے پابندی عائد ہے۔
ایک میڈیکل رپورٹ کے مطابق، برطانیہ میں ہر سال ہزاروں افراد انٹرنیٹ پر بیچی جانے والی مہلک دواؤں اور ہیلتھ پراڈکٹ کے استعمال کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آن لائن دواؤں کی فروخت میں اضافے کا سبب ایسے مریض بھی ہیں جو مرض کی تشخیص کے بعد خود ہی علاج کرنے کی عادت رکھتے ہیں۔ بعض ایسے مریض بھی انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہیں جنھیں ڈاکٹر سے اپنے مرض کے بارے میں بات کرنے میں جھجھک محسوس ہوتی ہے۔
دوسری جانب یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر کی بھاری فیس اور لمبے انتطار سے بچنے کے لیے بھی آن لائن دواؤں کی خریداری کی جاتی ہے۔ تاہم، لوگوں کی ایک بڑی تعداد سستی ادویات کی خریداری کے لیے ایسی ویب سائٹس کو استعمال کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، غیر معیاری اور جعلی دواؤں کے استعمال کی روک تھام کے لیےمحکمہ صحت کے قوانین غیر موثر نظر آتے ہیں، جبکہ انٹرنیٹ پر بیچی جانے والی یہ زہریلی گولیاں ہر سال ایک لاکھ افراد کی جان لے لیتی ہیں۔
انٹرنیٹ پرفروخت کی جانے والی متعدد دوائیں ایسی ہیں جنھیں ڈاکٹر کی ہدایت کے بغیر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے، کیونکہ کسی بھی دوا کا غیر ذمہ دارنہ استعمال خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
نوجوانوں میں آن لائن ہیلتھ پروڈکٹ کے غیر ضروری استعمال کے حوالے سےاب تک کئی سنگین واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ گذشتہ ماہ لیڈز میڈیکل یونیورسٹی کی ایک 23 سالہ طالبہ سارہ ہوسٹن کی موت آن لائن خریدی جانے والی(DNP) یا ڈانیٹروفینل کیپسول کی وجہ سے ہوئی جسے وہ چند ماہ سے دبلا ہونے کے لیے استعمال کر رہی تھی۔
ڈی این پی کیپسول عام طور پر باڈی بلڈنگ کرنے والوں میں بہت مقبول ہے اس دوا میں (Pesticide ) حشرات کو مارنے والے زہریلے کمیکل کی بھاری مقدار شامل ہے جسے ڈاکٹرآج سے 80 برس قبل موٹاپا کم کرنے یا جسم کی فاضل چربی پگھلانے کے لیے نسخے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
ڈی این پی اگرچہ ہیلتھ اینڈ سیفٹی قوانین کی رو سے غیر قانونی دوا کے زمرے میں شامل نہیں ہے لیکن اس کے خطرناک ضمنی اثرات کی بنا پراس کے استعمال پر پابندی عائد ہے۔
رائل فارماسیوٹیکل سوسائٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 50 فیصد برطانوی میڈیکل کمپنیوں کے گاہک انٹرنیٹ کے ذریعے دوائیں خریدتے ہیں، جبکہ ہر 7 میں سے ایک فرد کے مطابق، وہ ویب سائٹس پر صرف ایسی ادویات کی خریداری کرتے ہیں جنھیں ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر نہیں خریدا جاسکتا۔
ڈینی لی فروسٹ جن کا تعلق میڈیسن اینڈ ہیلتھ کے ادارے سے ہے کہتے ہیں کہ، 'غیر لائسنس یافتہ ادویات اور جعلی دواؤں کا نقصان ان کےفائدے سے کہیں زیادہ ہے۔ ایسی دواؤں کا استعمال صحت کے ساتھ جوا کھلینے کے مترادف ہے۔ میری گذارش ہے کہ آن لائن خریدی جانے والی ادویات اور ہیلتھ پروڈکٹ کا ستعمال بغیر ڈاکٹر کے مشورے کے نہ کریں۔'
لی کے مطابق، مریض کمپیوٹرماؤس کی چند کلک پردواؤں کی بھاری مقدار خرید سکتا ہے، جبکہ دواؤں کی صحیح مقدار کا تعین ایک ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے۔ کسی بھی دوا کا مقدار سے زیادہ یا لمبی مدت تک استعمال کرنے پر نہ صرف ضمنی اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں بلکہ مریض خود کو ان دواؤں کا عادی بنا لیتا ہے۔
کمپیوٹر پرسینکڑوں میڈیکل کمپنیوں کی ویب سائٹس موجود ہیں جہاں سےاپنی مرضی کی دوا کو سستے داموں خریدا جا سکتا ہے ان میں اینٹی ڈپریشن، ہارمونزگروتھ کی دوائیں، طاقتور پین کلر اور کینسر جیسے مرض کے علاوہ ایڈز کے علاج میں استعمال کی جانے والی انتہائی طاقت ور گولیوں کی بھی خریداری کی جا سکتی ہے۔
مثلا Sibutramineایک ایسا کمیکل جزو ہے جس پر پابندی عائد ہے یہ عام طور پر دبلا کرنے والی ادویات اور بھوک ختم کرنے والی دواؤں کے فارمولے میں شامل ہوتا ہے اس کے استعمال سے دل کے دورے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اشتہارات کے ذریعے مقبول بنائے جانے والی جعلی گولیاں اور ہیلتھ پراڈکٹ کو عام طور پر گندی لیبارٹریز میں غیر معیاری اجزا سے تیار کیا جاتا ہے۔
جعلی دواؤں کی مارکیٹ دنیا میں 50 بلین سالانہ منافع بخش صنعت ہے۔ لیکن جعلی دواؤں کی تیاری میں چوہے مارنے کا زہر، بورک ایسڈ، لیڈپینٹ، فلور ویکس، اورمرکری کے علاوہ اینٹوں کا چورا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔