اگر لوگوں سے سوال کیا جائے کہ کیا وہ اس قاتل بیکٹیریا کو جانتے ہیں جو ایڈز کے انفیکشن کے بعد دنیا بھر سب سے زیادہ ہلاکتوں کا باعث بنتا ہے، تو شاید، ہم میں سے بہت سے لوگ سوچ میں پڑ جائیں۔
'ٹیوبرکلوسسز' جسے ہم اور آپ سادہ الفاظ میں ٹی بی کے نام سے جانتے ہیں، جو قابل علاج مرض ہونے کے باوجود ہرسال دنیا بھر میں لاکھوں اموات کا سبب بنتا ہے۔
عالمی ادارہٴ صحت کے مطابق، دنیا میں تقریباً ایک تہائی افراد لیٹنٹ (پوشیدہ ) ٹی بی کے انفیکشن سے متاثر ہیں، جبکہ 10 فیصد افراد میں یہ انفیکشن ایکٹیو (فعال) شکل میں موجود ہوتا ہے۔ ہر سال دنیا میں 14 لاکھ افراد ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو کر مر جاتے ہیں۔
حتیٰ کہ، ایڈز سے مرنے والے ایک تہائی مریض حقیقت میں ٹی بی کے مرض کا شکار ہونے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتےہیں۔ ایڈز کے مریضوں میں ٹی بی کا مرض پھیلنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں، کیونکہ ایسے مریضوں میں قوتِ مدافعت انتہائی کمزور پڑ چکی ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں 24مارچ کو ٹی بی کے مرض سے آگاہی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
طب کی دنیا میں یہ دن ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ اسی روز جرمن سائنسدان 'رابرٹ کوچ' نے 1882ءمیں ٹی بی کا مرض پھیلانے والے بیکٹیریا Maycobacterim tuberculosis کو شناخت کیا تھا۔
یہ ایک ایسا وقت تھا جب مغربی ممالک میں ٹی بی کے مرض سے ہر سات میں سے ایک فرد کی موت واقع ہو جاتی تھی۔
کوچ کی یہ تحقیق آگے چل کر ٹی بی کے مرض کی شناخت اور اس کا علاج دریافت کرنے میں مددگار ثابت ہوئی۔ جسے ایک صدی بعد، 1996ءمیں عالمی ادراہٴ صحت کی جانب سے ٹی بی سے آگاہی کے دن کے لیے منتخب کیا گیا۔
اس روز دنیا بھر میں ٹی بی کے مرض سے آگاہی پہنچانے کے حوالے سے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ اس برس ٹی بی کے خلاف جو مہم چلائی جارہی ہے اسے 'اسٹاپ ٹی بی ان مائی لائف کا' نام دیا گیا ہے۔
اس بیماری کے سب سے زیادہ مریض تیسری دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں صحت اور صفائی کے ناقص انتظام اس بیماری میں اضافے کا باعث ہے۔ ٹی بی سے ہر سال سب سے زیادہ ہلاکتیں افریقہ میں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ترقی پذیر ملکوں انڈیا، پاکستان اور بنگلا دیش میں یہ مرض ایک بڑا خطرہ بن کر موجود ہے۔
عالمی ادارہٴ صحت کی سال2011 ءکی ایک رپورٹ کے مطابق 77 ممالک میں زیادہ تر اینٹی بایوٹک ادویات نے اس مرض کے خلاف مزاحمت اختیار کر لی ہے۔صرف روس میں اس مرض کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی35 فیصد ادویات مزاحمت اختیار کر لینے کی وجہ سے غیر موٴثر ہو چکی ہیں۔
نوے برس سے ٹی بی کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ویکسین'بی سی جی' کے بعد گذشتہ ماہ برطانیہ میں ٹی بی کے علاج کے لیے ایک نئی ویکسین کی جانچ کا تجربہ کیا گیا، جو بی سی جی کی ویکسین سے زیادہ موٴثر ثابت نہ ہو سکا۔خاص طور پر، اس ویکسین کا اثر ساؤتھ افریقہ کے نوزائیدہ بچوں میں مفید ثابت نہ ہو سکا۔
تاہم، ’لندن اسکول آف ہائی جین‘ کے ڈائریکٹر رچرڈ وائٹ کہتے ہیں کہ ٹی بی کے مرض کے لیے نئی ویکسین کی تلاش میں اب بھی 50 ویکسین پر لیبارٹریز میں تحقیق کی جارہی ہے۔
عالمی ادارہٴ صحت کا کہنا ہے کہ اگر اس صورت حال پر قابو نہ پایا جا سکا، تو 2015 ءتک ٹی بی سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 20 لاکھ تک جا پہنچے گی۔ اس سلسلے میں، گلوبل فنڈ کے ساتھ ملکر عالمی سطح پر چندہ اکھٹے کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ، کم آمدنی والے ملکوں میں اس مرض کے علاج کو ممکن بنایا جا سکے۔
ٹی بی ایک وائرل مرض ہے، جو براہ راست پھپھڑوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جس کے جراثیم ایک متاثرہ شخص کے کھانسنے یا چھینکنے پر ہوا میں خارج ہوتے ہیں، جب کوئی فرد اس فضا میں سانس لیتا ہے تو یہ جراثیم سانس کے ذریعے اس کے پھپھڑوں تک پہنچ جاتے ہیں۔
ایک مضبوط قوتِ مدافعت رکھنے والا شخص اس بیکٹیریا کا شکار نہیں بنتا، جبکہ کمزور قوتِ مدافعت رکھنے والے لوگوں کے پھپھڑوں کو یہ بیکٹیریا براہ راست متاثر کرتا ہے۔
ٹی بی کے مرض کی علامات اس جراثیم کے فعال ہونے کی صورت میں ظاہر ہونے لگتے ہیں، جس میں نمونیا، لگاتار تین ہفتے سے زائد کھانسی کا ہونا اور کھانسی میں خون آنا شامل ہے۔
ا
اس مرض کا علاج اینٹی بایوٹک دوا کے چھ سے بارہ ماہ کے کورس کے ذریعےکیا جاتا ہے۔ جبکہ، دنیا کے دنیا کے زیادہ تر ممالک میں بچوں کو ٹی بی سے بچانے کے لیے( BCG) کے ٹیکے لگوائے جاتے ہیں۔
ٹی بی سے بچاؤ کے لیے متوازن غذا اور صحت و صفائی کا خیال رکھنا اشد ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، متاثرہ مریض کو ایک تازہ ہوا رکھنے والے کمرے میں منتقل کر دینا ضروری ہوتا ہے۔
'ٹیوبرکلوسسز' جسے ہم اور آپ سادہ الفاظ میں ٹی بی کے نام سے جانتے ہیں، جو قابل علاج مرض ہونے کے باوجود ہرسال دنیا بھر میں لاکھوں اموات کا سبب بنتا ہے۔
عالمی ادارہٴ صحت کے مطابق، دنیا میں تقریباً ایک تہائی افراد لیٹنٹ (پوشیدہ ) ٹی بی کے انفیکشن سے متاثر ہیں، جبکہ 10 فیصد افراد میں یہ انفیکشن ایکٹیو (فعال) شکل میں موجود ہوتا ہے۔ ہر سال دنیا میں 14 لاکھ افراد ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو کر مر جاتے ہیں۔
حتیٰ کہ، ایڈز سے مرنے والے ایک تہائی مریض حقیقت میں ٹی بی کے مرض کا شکار ہونے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتےہیں۔ ایڈز کے مریضوں میں ٹی بی کا مرض پھیلنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں، کیونکہ ایسے مریضوں میں قوتِ مدافعت انتہائی کمزور پڑ چکی ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں 24مارچ کو ٹی بی کے مرض سے آگاہی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
طب کی دنیا میں یہ دن ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ اسی روز جرمن سائنسدان 'رابرٹ کوچ' نے 1882ءمیں ٹی بی کا مرض پھیلانے والے بیکٹیریا Maycobacterim tuberculosis کو شناخت کیا تھا۔
یہ ایک ایسا وقت تھا جب مغربی ممالک میں ٹی بی کے مرض سے ہر سات میں سے ایک فرد کی موت واقع ہو جاتی تھی۔
کوچ کی یہ تحقیق آگے چل کر ٹی بی کے مرض کی شناخت اور اس کا علاج دریافت کرنے میں مددگار ثابت ہوئی۔ جسے ایک صدی بعد، 1996ءمیں عالمی ادراہٴ صحت کی جانب سے ٹی بی سے آگاہی کے دن کے لیے منتخب کیا گیا۔
اس روز دنیا بھر میں ٹی بی کے مرض سے آگاہی پہنچانے کے حوالے سے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ اس برس ٹی بی کے خلاف جو مہم چلائی جارہی ہے اسے 'اسٹاپ ٹی بی ان مائی لائف کا' نام دیا گیا ہے۔
اس بیماری کے سب سے زیادہ مریض تیسری دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں صحت اور صفائی کے ناقص انتظام اس بیماری میں اضافے کا باعث ہے۔ ٹی بی سے ہر سال سب سے زیادہ ہلاکتیں افریقہ میں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ترقی پذیر ملکوں انڈیا، پاکستان اور بنگلا دیش میں یہ مرض ایک بڑا خطرہ بن کر موجود ہے۔
عالمی ادارہٴ صحت کی سال2011 ءکی ایک رپورٹ کے مطابق 77 ممالک میں زیادہ تر اینٹی بایوٹک ادویات نے اس مرض کے خلاف مزاحمت اختیار کر لی ہے۔صرف روس میں اس مرض کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی35 فیصد ادویات مزاحمت اختیار کر لینے کی وجہ سے غیر موٴثر ہو چکی ہیں۔
نوے برس سے ٹی بی کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ویکسین'بی سی جی' کے بعد گذشتہ ماہ برطانیہ میں ٹی بی کے علاج کے لیے ایک نئی ویکسین کی جانچ کا تجربہ کیا گیا، جو بی سی جی کی ویکسین سے زیادہ موٴثر ثابت نہ ہو سکا۔خاص طور پر، اس ویکسین کا اثر ساؤتھ افریقہ کے نوزائیدہ بچوں میں مفید ثابت نہ ہو سکا۔
تاہم، ’لندن اسکول آف ہائی جین‘ کے ڈائریکٹر رچرڈ وائٹ کہتے ہیں کہ ٹی بی کے مرض کے لیے نئی ویکسین کی تلاش میں اب بھی 50 ویکسین پر لیبارٹریز میں تحقیق کی جارہی ہے۔
عالمی ادارہٴ صحت کا کہنا ہے کہ اگر اس صورت حال پر قابو نہ پایا جا سکا، تو 2015 ءتک ٹی بی سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 20 لاکھ تک جا پہنچے گی۔ اس سلسلے میں، گلوبل فنڈ کے ساتھ ملکر عالمی سطح پر چندہ اکھٹے کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ، کم آمدنی والے ملکوں میں اس مرض کے علاج کو ممکن بنایا جا سکے۔
ٹی بی ایک وائرل مرض ہے، جو براہ راست پھپھڑوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جس کے جراثیم ایک متاثرہ شخص کے کھانسنے یا چھینکنے پر ہوا میں خارج ہوتے ہیں، جب کوئی فرد اس فضا میں سانس لیتا ہے تو یہ جراثیم سانس کے ذریعے اس کے پھپھڑوں تک پہنچ جاتے ہیں۔
ایک مضبوط قوتِ مدافعت رکھنے والا شخص اس بیکٹیریا کا شکار نہیں بنتا، جبکہ کمزور قوتِ مدافعت رکھنے والے لوگوں کے پھپھڑوں کو یہ بیکٹیریا براہ راست متاثر کرتا ہے۔
ٹی بی کے مرض کی علامات اس جراثیم کے فعال ہونے کی صورت میں ظاہر ہونے لگتے ہیں، جس میں نمونیا، لگاتار تین ہفتے سے زائد کھانسی کا ہونا اور کھانسی میں خون آنا شامل ہے۔
ا
اس مرض کا علاج اینٹی بایوٹک دوا کے چھ سے بارہ ماہ کے کورس کے ذریعےکیا جاتا ہے۔ جبکہ، دنیا کے دنیا کے زیادہ تر ممالک میں بچوں کو ٹی بی سے بچانے کے لیے( BCG) کے ٹیکے لگوائے جاتے ہیں۔
ٹی بی سے بچاؤ کے لیے متوازن غذا اور صحت و صفائی کا خیال رکھنا اشد ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، متاثرہ مریض کو ایک تازہ ہوا رکھنے والے کمرے میں منتقل کر دینا ضروری ہوتا ہے۔