’’میں تو ماروں گا اور مار دوں گا۔ میں تو پاگل ہوں، کاٹ کر پھینک دوں گا۔ جو پیغمبرِ اسلام کی توہین کرے گا۔‘‘
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں یہ الفاظ مبینہ طور پر پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے ایک ملازم کے بتائے جاتے ہیں جو کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے کارگو پر تعینات مسیحی خاتون سیکیورٹی انچارج کو یہ الفاظ کہہ رہا ہے۔
دوسری جانب خاتون کا کہنا ہے کہ انہوں نے کلیئرنس ایجنٹ کی گاڑی روکی، جس کے پاس اندر جانے کا اجازت نامہ اور گاڑی کا پاس بھی نہیں تھا۔
خاتون کے مطابق اس سے قبل بھی اسی گاڑی کو ایئرپورٹ کے کارگو ایریا میں جانے سے روکا گیا تھا اور اس کی اطلاع اعلیٰ حکام کو بھی کر دی گئی تھی۔
خاتون سیکیورٹی انچارج کا کہنا تھا کہ عین گیٹ پر تعینات پرائیویٹ گارڈز نے اس گاڑی کو اندر آنے دیا، جس سے آگے اس کی ڈیوٹی تھی اور مطلوبہ کاغذات اور پاس نہ دکھانے پر کار سوار کو خاتون نے اندر جانے کی اجازت نہیں دی اور گاڑی باہر نکالنے کو کہا۔
اتنے میں سی اے اے میں کام کرنے والا ایک اور ملازم گیٹ پر آیا، جس نے کلیئرنگ ایجنٹ کی گاڑی اندر جانے پر اصرار کیا البتہ خاتون نے اجازت نہیں دی، جس پر اس خاتون کے بقول سی اے اے کے ملازم نے دھمکی دی کہ وہ ابھی مولویوں کو اکھٹا کریں گے اور ان پر توہینِ مذہب کا الزام لگائیں گے۔
خاتون کا کہنا ہے کہ اس نے واضح الفاظ میں کہا کہ نہ تو اس نے کبھی کوئی ایسی حرکت کی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی معاملہ تھا بلکہ ایک گاڑی اندر لے جانے کی اجازت نہ دینے پر دوسرے سرکاری افسر نے اسے یہ دھمکی دی ہے۔
خاتون کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ 2017 سے کراچی ایئرپورٹ کے کارگو ایریا میں سیکیورٹی کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
مسیحی خاتون کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے پر سیاسی قائدین اور انسانی حقوق کے رہنما جہاں اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کر رہے ہیں، وہیں خاتون کی بہادری کی بھی تعریف کی جارہی ہے کہ اس نے توہینِ مذہب کے غلط الزام کا ہمت سے سامنا کرکے دو ٹوک مؤقف اختیار کیا جب کہ جھوٹا الزام عائد کرنے والے کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق بالخصوص اقلیتوں کے حقوق کے لیے سرگرم سینٹر فار سوشل جسٹس کے سربراہ پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں قانون کی بالادستی میں جہاں کمی واقع ہوئی ہے وہیں نفرت پر مبنی تقاریر کا اثر و رسوخ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ لوگ توہینِ مذہب کے الزام کو اپنے ذاتی نوعیت کے چھوٹے جھگڑے نمٹانے میں بھی استعمال کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کر روکنے کے لیے قانونی احتیاطی اقدامات کیے جائیں۔ ایسے افراد کو قانون کے تحت سزا دی جائے جو توہین کا الزام عائد کرکے لوگوں کو تشدد پر اکساتے ہیں۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کراچی ایئرپورٹ پر کارگو ایریا میں بغیر پاس گاڑی لے جانے کی کوشش اور جھگڑے کا معاملہ جمعرات کی شام کو پیش آیا تھا جب کہ انتظامیہ اس پورے معاملے سے باخبر ہے۔
ابتدائی تحقیقات کے نتیجے میں سی اے اے کے ملازم کو معطل کر دیا گیا جب کہ واقعے کی تفصیلی تحقیقات کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔
ادھر سابق صدر اور سندھ میں برسر اقتدار پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما آصف علی زرداری نے کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والے واقعے پر سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاتون سیکیورٹی انچارج کو فرائض کی ادائیگی سے روکنے کے لیے ان پر توہین مذہب کا الزام انتہائی شرمناک ہے۔
سابق صدر نے کہا کہ خاتون سیکیورٹی انچارج پر توہین کے الزام کی تحقیقات کرائی جائیں کیوں کہ یہ ایک انتہائی خطرناک عمل ہے۔
آصف زرداری نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو کہا ہے کہ خاتون سیکیورٹی افسر کی حفاظت کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔ کچھ عناصر مذہب کی آڑ میں ملک کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت اور عوام کو ایسی سوچ کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔
سابق صدر نے مزید کہا کہ خاتون سیکیورٹی افسر پر الزام غلط ثابت ہونے پر الزام لگانے والے کو سخت سزا دی جائے۔
پاکستان میں توہینِ مذہب انتہائی حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے، اگرچہ اس کے حوالے سے موجود قانون کے تحت سزائیں ملنے کی شرح انتہائی کم ہے جب کہ اس جرم کی سب سے بڑی سزا یعنی سزائے موت آج تک کسی مجرم کونہیں ملی تاہم قانون کے غلط استعمال کے واقعات کا عمومی طور پر الزام لگایا جاتا ہے اور محض الزامات کی بنیاد پر ہی توہینِ مذہب کے ملزمان کو انتہائی بے دردی سے قتل کرنے کے بھی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق 2021 میں توہینِ مذہب کے 84 مقدمات درج ہوئے جن میں سب سے زیادہ 45 مسلمانوں کے خلاف الزامات لگائے گئے جب کہ احمدیوں کے خلاف ایسے 25 اور مسیحی اور ہندو شہریوں کے خلاف 7، 7 مقدمات قائم کیے گئے۔
ان کل واقعات میں سے پنجاب میں سب سے زیادہ یعنی 68 واقعات پیش آئے۔