امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شمالی علاقوں میں لگنے والی آگ کو ریاست کی تاریخ کی سب سے زیادہ شدت والی آگ قرار دیا جا رہا ہے۔
آگ نے کیلی فورنیا کے شمال میں چار لاکھ 63 ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ رقبہ اسی ریاست کے شہر لاس اینجلس کے رقبے سے بھی زیادہ ہے۔
تیرہ جولائی کو کیلی فورنیا کے پہاڑی ٹاؤن گرین ول میں لگنے والی آگ اب بھی کئی مقامات پر بھڑک رہی ہے جسے امریکہ میں بڑے پیمانے پر لگنے والی آگ قرار دیا جا رہا ہے۔
حکام نے کہا ہے کہ آگ کے باعث اب تک تین افراد لاپتا ہیں جب کہ ہزاروں شہری علاقہ چھوڑ چکے ہیں۔
کیلی فورنیا میں لگنے والی آگ کو 'ڈگسی فائر' کہا جا رہا ہے جس پر قابو پانے کے لیے پانچ ہزار سے زیادہ اہلکار خدمات انجام دے رہے ہیں۔
آگ کے نتیجے میں اب تک 400 مکانات تباہ ہوئے ہیں۔ حکام کے مطابق کریسینٹ میلز ٹاؤن میں گھروں کو آگ سے بچانے کے لیے امدادی رضاکاروں کو ساز و سامان کے ساتھ رواںہ کر دیا گیا ہے۔
گورنر گیون نیوسم نے ہفتے کو آگ سے متاثرہ گرین ول ٹاؤن کا دورہ کیا جہاں انہوں نے آگ پر قابو پانے میں مصروف رضاکاروں اور امدادی کارکنوں کی کوششوں کو سراہا۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق حکام کی جانب سے علاقہ خالی کرنے کی ہدایات کے باوجود کئی مکینوں نے اپنا گھر بار چھوڑنے سے انکار کر دیا اور وہ آگ پر قابو پانے کے لیے کوششیں کرنے لگے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل خشک سالی اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث بڑے پیمانے پر آتش زدگی کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق ڈگزی فائر کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب ایک درخت ریجنل یوٹیلٹی پیسفک گیس کمپنی کی تار پر گرا جس کے بعد آگ بھڑک اٹھی۔
یاد رہے کہ 2018 میں لگنے والی کیمپ فائر کا الزام بھی اسی کمپنی پر عائد کیا گیا تھا۔ کیمپ فائر کے نتیجے میں 86 افراد ہلاک ہوئے تھے۔