لندن —
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے ایک بیان پر نمایاں برطانوی حلقوں نے کڑی تنقید کی ہے جس میں انھوں نے برطانیہ کو ایک عیسائی ملک قرار دیا تھا۔
برطانوی سائنس دانوں، ماہرینِ تعلیم اور ممتاز قلم کاروں کے ایک گروپ کی جانب سے پیر کو برطانوی روزنامہ 'ٹیلی گراف' میں ایک خط شائع ہوا ہے جس میں وزیر اعظم کے بیان پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے کہ برطانیہ جیسے کثیر الثقافتی معاشرے میں ان کا یہ بیان فرقہ وارانہ تقسیم کا باعث بن سکتا ہے۔
خط میں معروف برطانوی مصنف اورفلپ پل مین اور سر پیری پریشیٹ سمیت دیگر نمایاں برطانوی شخصیات نے کہا ہے کہ ہم کنزرویٹیو رہنما ڈیوڈ کیمرون کے مذہبی عقائد کا احترام کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بحثیت ایک سیاستدان یہ ان کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ تاہم ہمارا اعتراض برطانیہ کو عیسائی ملک کی شناخت دینے کے حوالے سے ہے جس کے نتائج سماج میں علیحدگی اور تقسیم کا باعث بن سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ ڈیوڈ کیمرون نے رواں ماہ ایک ایسٹر استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عیسائیت کے پیروکار ہونے کی حیثیت سے خود پر نازاں ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایک مقامی جریدے 'چرچ ٹائمز' میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں وزیر اعظم نے خود کو 'چرچ آف انگلینڈ' کا رکن بتایا تھا اور لکھا تھا کہ اگرچہ ان کی چرچ میں حاضری باقاعدہ نہیں رہتی ہے اور وہ خود کو ایک کلاسیکل عیسائی بھی نہیں سمجھتے ہیں تاہم ان کے بچے چرچ اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔
انھوں نے کہا تھا کہ برطانیہ کو ایک عیسائی ملک کی حیثیت سے زیادہ پراعتماد ہونا چاہیے۔
برطانوی وزیرِاعظم کے بیان کے خلاف احتجاجی خط کے مندرجات میں لکھا گیا ہے کہ محدود آئینی نظریے کے تحت برطانیہ میں مستحکم چرچ ضرور موجود ہیں لیکن برطانیہ کو ایک عیسائی ملک نہیں کہا جا سکتا۔ خط کے مطابق زیادہ تر برطانوی افراد نہیں چاہتے کہ ان کی مذہبی شناخت کا فیصلہ حکومت کرے۔
برطانوی دانشوروں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ معاشرتی سطح پر برطانیہ بہت پہلے سے عیسائی، غیر مسیحی اور غیر مذاہب کے پیروکاروں کا معاشرہ رہا ہے جہاں شہریوں کے مذہبی نقطہ نظر میں اختلاف پایا جاتا ہے اور بڑی حد تک یہ ایک غیر مذہبی معاشرہ ہے۔ کئی جائزوں کے نتائج سے بھی ظاہر ہوا ہے کہ برطانویوں میں سے بیشتر اپنے عقائد اور انفرادی تشخص میں عیسائی نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق عیسائیت برطانیہ اور ویلز میں سب سے بڑا مذہب ہے۔
لیکن اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہےکہ جو لوگ عیسائی شناخت رکھتے ہیں ان کی تعداد 2001ء کی مردم شماری کے مقابلے میں 72 فیصد سے گھٹ کر 59 فیصد رہ گئی ہے جب کہ ملکی آبادی کا لگ بھگ 14 فیصد کسی بھی عقیدے کے ماننے والے نہیں ہیں۔
وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے ایک ترجمان نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ برطانیہ ایک عیسائی ملک ہے اور ایسا کہتے ہوئے کسی کو ڈرنا نہیں چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس بیان کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ برطانیہ میں کسی اور عقیدے کی پیروی کرنا یا لا دین ہونا غلط ہے۔
وزیر اعظم کیمرون نے اس سے قبل کئی مواقع پر کہا ہے کہ انھیں اس بات پر فخر ہے کہ برطانیہ مختلف عقائد کی پیروی کرنے والوں کا گھر ہے اور برطانیہ کو مضبوط اور مستحکم بنانے میں تمام گروہوں کی خدمات شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ڈیوڈ کیمرون کا بیان 'چرچ آف انگلینڈ' اور ان کی سیاسی جماعت 'کنزرویٹیو' کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کے تناظر میں ہے۔
کیمرون کی جماعت آئندہ سال پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے جارہی ہے اور ایسے میں اسے 'چرچ آف انگلینڈ' کی جانب سے فلاح وبہبود کے منصوبوں میں اصلاحات اور 'فوڈ بینک' کے بڑھتے ہوئے استعمال پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
برطانوی سائنس دانوں، ماہرینِ تعلیم اور ممتاز قلم کاروں کے ایک گروپ کی جانب سے پیر کو برطانوی روزنامہ 'ٹیلی گراف' میں ایک خط شائع ہوا ہے جس میں وزیر اعظم کے بیان پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے کہ برطانیہ جیسے کثیر الثقافتی معاشرے میں ان کا یہ بیان فرقہ وارانہ تقسیم کا باعث بن سکتا ہے۔
خط میں معروف برطانوی مصنف اورفلپ پل مین اور سر پیری پریشیٹ سمیت دیگر نمایاں برطانوی شخصیات نے کہا ہے کہ ہم کنزرویٹیو رہنما ڈیوڈ کیمرون کے مذہبی عقائد کا احترام کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بحثیت ایک سیاستدان یہ ان کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ تاہم ہمارا اعتراض برطانیہ کو عیسائی ملک کی شناخت دینے کے حوالے سے ہے جس کے نتائج سماج میں علیحدگی اور تقسیم کا باعث بن سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ ڈیوڈ کیمرون نے رواں ماہ ایک ایسٹر استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عیسائیت کے پیروکار ہونے کی حیثیت سے خود پر نازاں ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایک مقامی جریدے 'چرچ ٹائمز' میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں وزیر اعظم نے خود کو 'چرچ آف انگلینڈ' کا رکن بتایا تھا اور لکھا تھا کہ اگرچہ ان کی چرچ میں حاضری باقاعدہ نہیں رہتی ہے اور وہ خود کو ایک کلاسیکل عیسائی بھی نہیں سمجھتے ہیں تاہم ان کے بچے چرچ اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔
انھوں نے کہا تھا کہ برطانیہ کو ایک عیسائی ملک کی حیثیت سے زیادہ پراعتماد ہونا چاہیے۔
برطانوی وزیرِاعظم کے بیان کے خلاف احتجاجی خط کے مندرجات میں لکھا گیا ہے کہ محدود آئینی نظریے کے تحت برطانیہ میں مستحکم چرچ ضرور موجود ہیں لیکن برطانیہ کو ایک عیسائی ملک نہیں کہا جا سکتا۔ خط کے مطابق زیادہ تر برطانوی افراد نہیں چاہتے کہ ان کی مذہبی شناخت کا فیصلہ حکومت کرے۔
برطانوی دانشوروں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ معاشرتی سطح پر برطانیہ بہت پہلے سے عیسائی، غیر مسیحی اور غیر مذاہب کے پیروکاروں کا معاشرہ رہا ہے جہاں شہریوں کے مذہبی نقطہ نظر میں اختلاف پایا جاتا ہے اور بڑی حد تک یہ ایک غیر مذہبی معاشرہ ہے۔ کئی جائزوں کے نتائج سے بھی ظاہر ہوا ہے کہ برطانویوں میں سے بیشتر اپنے عقائد اور انفرادی تشخص میں عیسائی نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق عیسائیت برطانیہ اور ویلز میں سب سے بڑا مذہب ہے۔
لیکن اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہےکہ جو لوگ عیسائی شناخت رکھتے ہیں ان کی تعداد 2001ء کی مردم شماری کے مقابلے میں 72 فیصد سے گھٹ کر 59 فیصد رہ گئی ہے جب کہ ملکی آبادی کا لگ بھگ 14 فیصد کسی بھی عقیدے کے ماننے والے نہیں ہیں۔
وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے ایک ترجمان نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ برطانیہ ایک عیسائی ملک ہے اور ایسا کہتے ہوئے کسی کو ڈرنا نہیں چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس بیان کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ برطانیہ میں کسی اور عقیدے کی پیروی کرنا یا لا دین ہونا غلط ہے۔
وزیر اعظم کیمرون نے اس سے قبل کئی مواقع پر کہا ہے کہ انھیں اس بات پر فخر ہے کہ برطانیہ مختلف عقائد کی پیروی کرنے والوں کا گھر ہے اور برطانیہ کو مضبوط اور مستحکم بنانے میں تمام گروہوں کی خدمات شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ڈیوڈ کیمرون کا بیان 'چرچ آف انگلینڈ' اور ان کی سیاسی جماعت 'کنزرویٹیو' کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کے تناظر میں ہے۔
کیمرون کی جماعت آئندہ سال پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے جارہی ہے اور ایسے میں اسے 'چرچ آف انگلینڈ' کی جانب سے فلاح وبہبود کے منصوبوں میں اصلاحات اور 'فوڈ بینک' کے بڑھتے ہوئے استعمال پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔