|
مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے حال ہی میں دریافت کیا ہے کہ شہد کی مکھیاں، اپنی سونگھنے کی طاقت ور حس کی مدد سے کسی شخص کی سانس سونگھ کر یہ پتہ لگا سکتی ہیں کہ آیا اسے پھیپھڑوں کا کینسر ہے یا نہیں۔
مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں بائیو میڈیکل انجنیئرنگ کے شعبے کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈیبجیت ساہا کہتے ہیں کہ ہماری دنیا بصری ہے۔ جب کہ کیڑے مکوڑوں اور حشرات الارض کی دنیا سونگھنے کی دنیا ہے۔ اس لیے ان کی سونگھنے کی حس بہت ہی تیز ہوتی ہے۔
ڈیبجیت ساہا اس ٹیم کا حصہ رہے ہیں جس کا اس بارے میں ایک تحقیقی مقالہ گزشتہ مہینے شائع ہوا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ کچھ ریسرچز سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ جب بعض قسم کا کینسر انسان کے جسم کے اندر بڑھتا ہے تو مریض کی سانس میں کچھ تبدیلی آ جاتی ہے۔ ہماری تحقیق سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ شہد کی مکھیاں کینسر کے خلیوں سے خارج ہونے والی بو کے ذریعے پھیپھڑوں کے کینسر اور ممکنہ طور پر کئی دوسری بیماریوں کا پتہ لگا سکتی ہیں۔
ساہا اور ان کی ٹیم نے اپنی تحقیق کے لیے شہد کی مکھیوں کو استعمال کیا اور الیکٹروڈ ان کے دماغوں سے منسلک کر دیے۔ اس کے بعد ان کا سامنا ایسے مصنوعی مرکبات سے کرایا گیا جن کی بو پھیپھڑوں کے کینسر کے مریضوں کے سانسوں جیسی تھی۔
93 فیصد واقعات میں شہد کی مکھیاں کینسر سے متاثرہ سانس اور صحت مند شخص کی مصنوعی سانس کے درمیان فرق کرنے میں کامیاب رہیں۔ بات صرف یہیں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ شہد کی مکھیاں پھیپھڑوں کے کینسر کی مختلف اقسام میں فرق کو بھی شناخت کر سکتی ہیں۔
شہد کی مکھیوں پر کی جانے والی اس تحقیق کے نتائج پھیپھڑوں، چھاتی، سر اور گردن اور بڑی آنت کے کینسر سمیت کئی دیگر اقسام کے کینسروں کا ابتدائی سطح پر ہی پتہ چلانے میں مدد دے سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ کینسر سے متعلق سانس پر مبنی تشخیص انقلابی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی بار کینسر کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب وہ کافی پھیل چکا ہوتا ہے اور اس کا ٹیومر کافی بڑھ چکا ہوتا ہے۔ لیکن عام طور پر جب انسانی جسم کے اندر کینسر بڑھنا شروع ہوتا ہے تو اس کی علامتیں سب سے پہلے سانس میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
ساہا نے بتایا کہ انہیں توقع ہے کہ وہ جلد ہی ایک ایسا چھوٹا سا آلہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے جس میں زیر تشخیص مریض سانس لے سکے گا اور اس میں شہد کی ایسی مکھیاں چھوڑی جائیں گے جن کے دماغ میں الیکٹروڈ نصب ہوں گے۔ یہ سائبرگ سینسر ہے جو فوری طور پر ٹیسٹ کے نتائج فراہم کر دے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں ہمارے پاس یہ آلہ موجود ہو گا اور ہم دنیا کو یہ دکھا سکیں گے کہ شہد کی مکھیوں کے دماغ میں نصب کیے جانے والے سینسرز کے استعمال سے کینسر کا ابتدائی اسٹیج پر پتہ لگایا جا سکتا ہے۔
جانوروں کی مدد سے کینسر کا کھوج لگانے کا تصور نیا نہیں ہے۔ پینسلوینیا یونیورسٹی کے پین ویٹ ورکنگ ڈاگ سینٹر میں محقیقین کتوں کو بعض اقسام کے کینسر کی بو شناخت کرنے کی تربیت دے رہے ہیں۔
پین ویٹ ورکنگ ڈاگ سینٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سینڈی اوٹو کہتی ہیں کہ کتوں کے علاوہ بھی کئی ایسے جانور ہیں جن کے سونگھنے کی حس بہت تیز اور اچھی ہوتی ہے۔ لیکن کتوں کو جو چیز دوسرے جانورں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کا انسان کے ساتھ شاندار تعلق ہے اور وہ حاصل کردہ معلومات کو بہتر طور پر انسان کو منتقل کر سکتے ہیں۔
یونیورسٹی کے اس سینٹر میں کتوں کو مختلف خاندانوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے اور وہ روزانہ کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔
اس سینٹر میں تحقیق سے وابستہ ایک پی ایچ ڈی محقق کلارا ولسن کہتی ہیں کہ ہر کتا اس کام کے لیے موزوں نہیں ہوتا۔
انہوں نے بتایا کہ اگر ایک کتا اس قسم کے کام میں دلچسپی ظاہر نہ کر رہا ہو تو ہمیں جلد ہی کوئی دوسرا کتا ڈھونڈنا چاہیے۔ آپ ہر کتے سے یہ کام نہیں لے سکتے ، کیونکہ جو کتا زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا ہوتا وہ آپ کو اچھے معیار کے نتائج بھی نہیں دے سکتا۔
کلارا ولسن کہتی ہیں کہ اچھے نتائج کے لیے ضروری ہے کہ کتا یہ کام دلچسپی سے کرے اور اسے اپنے لیے ایک تفریحی کھیل سمجھ کر کرے۔
سونگھ کر کینسر کی بو کا کھوج لگانا جانوروں کے لیے تو ایک کھیل ہو سکتا ہے لیکن محقیقین کو ان تجربات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جانور طبی سائنس کی مشینوں کے مقابلے میں کینسر کا بہتر طور پر پتہ چلا لیتے ہیں۔ ایک کتے کی سونگھے کی حس انسانوں کے مقابلے میں دس ہزار سے ایک لاکھ گنا تک بہتر ہوتی ہے۔
سینٹر میں تحقیق کرنے والی ایک اور پی ایچ ڈی محقیق امریتا مالیکرجن کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی تحقیق سے یہ پتہ چلا ہے کہ اس معاملے میں کتے کمپیوٹروں سے زیادہ بہتر نتائج دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں دستیاب تمام چیزوں کے مقابلے میں بو کے مالیکیولز شناخت کرنے میں ان کی صلاحیت کہیں زیادہ ہے۔
ماہرین کو توقع ہے کہ وہ ایسی ٹیکنالوجی تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو کینسر کی بو کو دوسری چیزوں سے الگ کر کے شناخت کر سکے گی اور اس طرح وہ ایک الیکٹرانک ناک بنا سکیں جو کینسر کو شناخت کرنے سے متعلق کتے کی سونگھنے کی صلاحیت کا متبادل ہو گی اور وہ ابتدائی سطح پر ہی کینسر کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اوٹو کا کہنا ہے کہ یہ ہماری تحقیق کی آخری حد نہیں ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اس تحقیق سے صرف کینسر کی تشخیص کے عمل میں ہی مجموعی طور بہتری نہیں آئے گی بلکہ بہت سی دوسری بیماریوں کا کھوج لگانے کی راہ بھی ہموار ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ قدیم تاریخ میں جھانک کر دیکھیں تو یونانی اور رومن ادوار میں طبیب بو کو تشخیص کے ایک پہلو کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اور میرا خیال ہے کہ جدید دور کے ایک انسان کے طور پر ہمیں بھی اس طرف جانا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ ہم واقعتاً اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس سے نہ صرف انسانوں بلکہ کتوں اور دیگر اقسام کے جانوروں کی صحت کے معیار کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔