|
کراچی -- پاکستان کو درپیش معاشی بحران کی بنیادی وجوہات میں سے ایک حکومتی وسائل کا کم اور اخراجات کا زیادہ ہونا بتایا جاتے ہے۔ ایسے میں معاشی ماہرین اپنے وسائل بڑھانے کے لیے ان شعبوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کا مشورہ دیتے ہیں جہاں سے اب تک حکومت بہت کم یا بالکل ٹیکس جمع نہیں کر پاتی۔
کسی بھی حکومت کو اپنے محاصل کو بڑھانے کے لیے مختلف شعبوں میں ٹیکس لاگو کرنا پڑتا ہے اور اگر اس سے بھی گزارا نہ ہو تو ٹیکس کی شرح کو بڑھانا بھی پڑتا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی مجموعی قومی دولت یعنی جی ڈی پی کا محض 10 فی صد سے بھی کم، ٹیکس کی مد میں جمع ہو پاتا ہے۔
لیکن بمشکل کُل آبادی کا محض تین فی صد ہی ٹیکس دیتا ہے جس میں بڑی تعداد تنخواہ دار طبقے کی ہے۔
ماہر معیشت ذیشان مرچنٹ کے مطابق پاکستان کا مسئلہ دہری نوعیت کا ہے۔ ایک تو ٹیکس جمع کرنے کی شرح انتہائی کم ہے اور دوسرا ٹیکس جن طبقات سے جمع کیا جاتا ہے وہ بہت ہی محدود ہیں۔ ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والوں میں کانٹریکٹرز، بینک ڈپازیٹرز اور درآمد کنندگان کے بعد تنخواہ دار طبقہ شامل ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ تنخواہ دار طبقے نے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران ٹیکس ادائیگیوں میں امیر برآمد کنندگان کو پیچھے چھوڑ دیا۔
تنخواہ دار طبقے نے ٹیکسوں کی مد میں 158 ارب روپے کا حصہ ڈالا جو پچھلے مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 38 فی صد زیادہ ہے۔ جب کہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ رقم امیر اور مراعات یافتہ برآمد کنندگان کے جمع کردہ ٹیکس سے 243 فی صد زیادہ ہے جن کے کُل ٹیکسز کی وصولی محض 46 ارب روپے تھی۔
اسی طرح سال کے 11 ماہ کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں تنخواہ دار طبقے نے مجموعی طور پر 326 ارب روپے کے ٹیکسز قومی خزانے میں جمع کرائے جب کہ اس کے مقابلے میں اسی عرصے میں برآمد کننگان نے محض 86 ارب روپے ٹیکسوں کی مد میں جمع کرائے۔
عوام حکومت کو براہ راست ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟
ماہر معاشیات سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ درحقیقت اس کا تعلق حکومت پر اعتماد کی کمی سے ہے۔ اگر حکومت لوگوں کو بالخصوص مڈل کلاس کو تمام تر ضروری سہولیات فراہم کرے مثلاً بلا تعطل بجلی، صاف پانی، گیس، صحت، تعلیم اور دیگر انفراسٹرکچر تو کوئی وجہ نہیں کہ شہریوں کو ٹیکس دینے پر قائل نہ کیا جا سکے۔
لیکن یہاں عام شہری پر براہ راست کی بجائے بالواسطہ ٹیکس زیادہ وصول کیا جاتا ہے اور وہ ٹیکس بھی عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے غیر ترقیاتی اخراجات میں خرچ ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً شہریوں کو اپنی تعلیم، صحت، پانی، حتیٰ کہ بجلی اور گیس کے لیے بھی حکومت پر تکیہ کرنے کے بجائے اپنے لیے خود انتظام کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک جانب تنخواہ دار شہریوں سے تو براہ راست یعنی انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ لیکن دوسری جانب کئی ایسے شعبے ہیں جہاں لوگوں کی سالانہ آمدنی کروڑوں اور بعض کی تو اربوں میں ہے لیکن وہ حکومتی پالیسیوں کے باعث ٹیکس ادائیگی سے تقریباً مستثنیٰ ہیں۔
ان میں سب سے بڑا طبقہ زرعی آمدن رکھنے والوں کا ہے جس کے بعد تاجر، رئیل اسٹیٹ مالکان، ٹرانسپورٹرز، سونے کے تاجر، دودھ اور گوشت جیسے کاروبار کرنے والے اور دیگر کئی طبقات شامل ہیں۔
ان شعبوں کی ٹیکس نیٹ میں شمولیت سے باآسانی 600 سے 800 ارب روپے ٹیکس وصولی بڑھا سکتی ہے۔ لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ قانون ساز ادارے یعنی وفاقی اور صوبائی اسمبلیاں ہیں جہاں ان طبقات بالخصوص زرعی آمدن رکھنے والوں کی اکثریت موجود ہے اور وہ کبھی خود پر ٹیکس عائد کیے جانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
سلمان نقوی کے مطابق اس کی ایک اور وجہ کرپشن بھی ہے۔ حکومتی اداروں بالخصوص خود فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں کرپشن کا تاثر عام ہونے کی وجہ سے لوگوں کا ادارے پر اعتماد کم ہے۔
ایسے میں عام شہریوں کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح بھی حکومتی نظروں سے دور رہیں اور وہ ٹیکس کٹوتی سے بچتے رہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ معیشت کو دستاویزی بنانے میں مشکلات کا سامنا ہے اور بیش تر شعبوں میں کام کیش پر ہوتا ہے اور یوں متمول خاندانوں اور شخصیات کی آمدنی سے حکومت لاعلم رہتی ہے۔
ذیشان مرچنٹ کے خیال میں اکثر کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں معاشی پالیسوں میں تسلسل نہ ہونے اور سیاسی استحکام نہ ہونے کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری نہیں آتی۔
اُن کے بقول پاکستان میں اس وقت انکم ٹیکس کی شرح 35 فی صد ہے۔ اس کے علاوہ دس فی صد سپر ٹیکس، دو فی صد ورکرز ویلفئیر فنڈ اور پانچ فی صد ورکرز پرافٹ پارٹیسیپیشن فنڈ بھی شامل ہیں۔ جب 100 میں سے 52 فی صد کسی سرمایہ کار کی آمدن ٹیکسوں کی مد میں چلی جائے گی تو وہ کیوں یہاں صنعت یا کوئی اور کاروبار لگائے گا؟
اور جب اسے یہ بھی معلوم ہوکہ 52 فی صد ٹیکس دینے کے بعد بھی صاف پانی خریدنا ہو گا۔ بجلی کی فراہمی پر کوئی اعتبار نہیں، سیکیورٹی گارڈز بھی رکھنا پڑیں گے تو ایسے میں مقامی سرمایہ کار بھی سرمایہ کاری سے کتراتا ہے۔
ذیشان مرچنٹ کا کہنا ہے کہ جب تک اس مسئلے کو حل نہیں کیا جائے گا تو معاشی بہتری کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔
اُن کے بقول مسئلہ یہ ہے کہ جو ٹیکس دے رہا ہے وہی پھنسا ہوا ہے۔ اسی کا ٹیکس آڈٹ ہو رہا ہے۔ اسے ہی نوٹسز دیے جا رہے ہیں اور اسی کو کہا جا رہا ہے کہ آپ ان لوگوں کا بوجھ بھی اٹھائیں جو ٹیکس ادا نہیں کرتے۔
یہی وجہ ہے کہ لوگ ٹیکس نظام کا حصہ بننے سے بچتے ہیں کیوں انہیں معلوم ہے کہ ٹیکس نیٹ میں آنے سے انہیں ہی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ٹیکس نظام میں اصلاحات لائے جانے تک ملک میں ٹیکس پئیرز کی تعداد کو بڑھایا نہیں جا سکتا۔
ٹیکس نظام میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں: وفاقی وزیر محصولات و خزانہ
ادھر وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جاری کوششوں کے ذریعے ٹیکس وصولی کو بہتر بنانے کے حکومتی عزم کا اعادہ کیا ہے۔
اپنے حالیہ بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ٹیکس جمع کرنے والی اتھارٹی کی ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے ٹیکس کی بنیاد کو بڑھایا جائے گا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے کی کوششوں سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔
دوسری جانب یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے دباؤ پر اپنے محصولات میں اضافے کے لیے انکم ٹیکس کی شرح 35 سے بڑھا کر 45 فی صد تک لے جانے پر غور کر رہی ہے۔ کیوں کہ انکم ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
اسی طرح آئندہ مالی سال میں پیٹرولیم مصنوعات پر بھی پانچ فی صد سیلز ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ٹیکس پیٹرولیم لیوی کے علاوہ ہو گا۔ جب کہ دیگر اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح 18 سے بڑھا کر 19 فی صد کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔
فورم