عالمی ماہرین صحت نے متنبہ کیا ہے کہ بہت گرم مشروبات سرطان کی ایک ممکنہ وجہ ہو سکتے ہیں۔
تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ ماہرین صحت نے نئی تحقیق میں چائے یا کافی کے بجائے تیز گرم چائے یا کافی کو اس بیماری کے ساتھ منسلک کیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے بدھ کے روز ایک نئی تحقیق کے نتائج جاری کئے ہیں جس کے مطابق ماہرین کو چائے یا کافی پینے سے سرطان پیدا ہونے کا کوئی حتمی ثبوت نہیں ملا ہے تاہم محدود شواہد سے یہ پتا چلا ہے کہ گرم مشروبات پینے سے سرطان کا خطرہ بڑھتا ہے۔
گرم مشروبات کے لیے عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جاری نئی ہدایات کے مطابق اس بیماری سے بجنے کے لیے تازہ چائے اور کافی کو ٹھنڈا کر کے پینا چاہیئے کیونکہ چند منٹ کا انتظار عام طور پر گرم مشروبات کو نگلنے کے قابل بناتا ہے۔
کینسر پر تحقیق کی بین الاقوامی ایجنسی سے منسلک محققین نے کافی میں سرطان کی ممکنہ خصوصیات تلاش کرنے کے لیے 1000 سے زائد سائنسی مطالعوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ اندازا لگایا کہ سرطان کے خطرے کا ذمہ دار گرم مشروبات کا مادہ نہیں تھا بلکہ گرم مشروبات کا درجہ حرارت سرطان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
وسیع پیمانے پر کئے جانے والے مطالعے کا انعقاد انٹرنیشل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر IARC)) کی طرف سے کیا گیا، جس کے نتائج سے یہ ظاہر ہوا کہ 65 ڈگری سیلسیئس یا اس سے تیز گرم مشروبات ایسوفیجیئل کینسر یا خوراک کی نالی کے سرطان کی بیماری کے امکانات کو دوگنا کرتے ہیں۔
ایجنسی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کرسٹوفر وائلڈ نے کہا کہ نتائج بتاتے ہیں کہ تیز گرم مشروبات خوراک کی نالی کے سرطان کی ایک ممکنہ وجہ ہو سکتے ہیں اور بظاہر مشروبات کے مقابلے میں اس کا درجہ حرارت اس کے لیے ذمہ دار ہے۔
انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ چین، ترکی، ایران اور جنوبی امریکہ میں کئے جانے والے مطالعوں میں خوارک کی نالی کے سرطان کا خطرہ پایا گیا ہے جہاں روایتی طور پر گرم مشروبات کو 70 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ گرم درجہ حرارت پر پیا جاتا ہے اور یہ خطرہ پی جانے والی مشروبات کے درجہ حرارت کے ساتھ منسلک تھا۔
محقق کرسٹوفر وائلڈ نے واضح کیا کہ تمباکو نوشی اور شراب نوشی خوراک کی نالی کے سرطان کےخطرے کے دو زیادہ اہم عوامل ہیں۔
تازہ ترین تحقیقات میں چائے شامل نہیں تھی جبکہ آئی اے آر سی کے ایک پچھلے مطالعے کے نتائج میں اخذ کیا گیا تھا کہ چائے سرطان کا سبب نہیں ہے۔
سرطان پر تحقیق کی بین الاقوامی ایجنسی نے 1990ء کے ایک مطالعے میں کافی کو مثانے کے سرطان کی ایک ممکنہ وجہ بتایا تھا۔
تاہم نئی تحقیق سے وابستہ محقق ڈاکٹر کرسٹوفر وائلڈ نے کہا کہ نئے نتائج یہ ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہیں کہ کافی سرطان کے لیے خطرہ نہیں ہے لیکن اب تک اس بات کے بھی حتمی ثبوت نہیں ملے ہیں کہ کافی کینسر کا ایک سبب بنتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہر سال خوراک کی نالی کے کینسر کی بیماری سے چار لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔