برطانیہ کی کیمبرج یونی ورسٹی کی ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چرس یا بھنگ استعمال کرنے والے عام افراد سے زیادہ سست اور کاہل نہیں ہوتے۔
اگرچہ عام طور پر تو یہی مشہور ہے کہ جو لوگ چرس، بھنگ یا گانجا استعمال کرتے ہیں، وہ سست اور کاہل ہوتے ہیں۔ لیکن کیمبرج یونیورسٹی، یونیورسٹی آف لندن، کنگز کالج لندن کے سائنسدانوں پر مشتمل ایک ٹیم نے انٹرنیشنل جرنل آف نیورو سائکو فارماکولوجی میں گزشتہ ماہ ایک تحقیق شائع کی ہے۔ اس تحقیق میں سائنسدانوں نے اس بات کا تجزیہ کیا کہ آیا کینابیز یعنی گانجے کا نشہ کرنے والے افراد میں گانجا نہ استعمال کرنے والے افراد کے مقابلے میں تحریک کی کمی ہے، یا وہ ’انہوڈونیا‘ کا شکار ہیں۔ اس حالت میں فرد میں محنت کے عوض انعام پانے کی خواہش کم ہو جاتی ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے سائنسی رسالے یورک الرٹ کو جاری کئے جانے والی پریس ریلیز میں اس تحقیق کی ایک مصنفہ مارٹینے سکوملین نے کہا کہ ’’ہم ٹی وی سکرینوں پر سست چرسی کی اصطلاح اس قدر سن چکے ہیں کہ ہم یہ سوال نہیں اٹھاتے کہ کیا یہ گانجا استعمال کرنے والوں کی صحیح ترجمانی ہے۔ ہمارا کام یہ دکھاتا ہے کہ ان افراد کے بارے میں ایسے خیالاتگھسے پٹے ہیں۔ اور یہ کہ ایسے لوگ جو گانجا استعمال کرتے ہیں، وہ اپنے اندر ان لوگوں جتنی ہی تحریک پاتے ہیں یا سست ہوتے ہیں جتنا وہ لوگ جو گانجا نہیں پیتے۔‘‘
دنیا بھر میں ایک بندوبست کے تحت دستیاب نشہ آور اشیا میں نکوٹین اور الکوحل کے بعد سب سے زیادہ گانجے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ 2020 کی امریکہ کی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آن ڈرگ ایبیوز نے رپورٹ کیا کہ 15 سے 16 برس کی عمر کے 28 فیصد افراد گانجا استعمال کرتے ہیں۔
پریس ریلیز کے مطابق اس ٹیم نے 274 افراد، جن میں بلوغت کی عمر کو پہنچنے والے نوجوان اور بالغ افراد تجربے میں شامل کیے جو کم از کم تین ماہ سے ہر ہفتہ تین سے چار بار گانجے کا استعمال کر رہے تھے۔ ان افراد پر کئے گئے تجربات اور مشاہدے کا تقابل ایسے افراد سے کیا گیا جو گانجا استعمال نہیں کرتے۔
اس تجربے کے دوران ان افراد میں بے پروائی، خوشی حاصل کرنے کی خواہش، نئے ہنر سیکھنے اور کسی بھی کام کو تکمیل تک پہنچانے جیسی صفات کا معائنہ کیا گیا۔
یونیورسٹی آف کیمبرج کے ڈیپارٹمنٹ آف سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والی مارٹینے سکملن نے یوریک الرٹ کو بتایا کہ ’’ہم اس بات پر بہت حیران ہوئے کہ گانجا استعمال کرنے والے اور استعمال نہ کرنے والوں میں تحریک کی کمی، یا لطف لینے میں کمی جیسی باتوں میں زیادہ فرق نہ تھا۔ حتی کہ ان افراد میں بھی جو روزانہ گانجا استعمال کرتے ہیں۔ یہ ٹی وی اور فلموں میں روزانہ دکھنے والے گھسے پٹے رولز کے برخلاف ہے۔‘‘
سائنسی جرنل یورک الرٹ سے بات کرتے ہوئے کنگز کالج لندن میں انسٹی ٹیوٹ فار سائکائٹری، سائکولوجی اینڈ نیوروسائنس سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ول لان نے بتایا کہ اس بارے میں بہت تشویش پائی جاتی ہے کہ نوبالغ افراد میں گانجے کے اثرات بالغ افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ول نے بتایا کہ ہماری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ گانجے کے نوبالغ افراد اور بالغان پر اثرات میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ بلکہ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ عام طور گانجے سے متعلق خیال کئے جانے والے برے اثرات سے گانجے کا کوئی تعلق ہے۔
یاد رہے کہ اس تحقیق ک کا حصہ بننے والوں نے گانجے کا استعمال نہیں کر رکھا تھا۔