ترک وزارت دفاع نے کہا ہے کہ شمالی شام کے سرحدی قصبے تل ابیض کے ایک بازار کے نزدیک ہونے والے کار بم دھماکے میں 13 افراد ہلاک جبکہ 20 زخمی ہوئے ہیں۔
دھماکے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی نے قبول نہیں کی۔
ترکی کی وزارت دفاع نے حملے کا الزام کرد تنظیم 'پیپلز پروٹیکشن یونٹس‘ (وائی پی جی) پر لگایا ہے۔ وائی پی جی کا تعلق شام میں لڑنے والی ’سیریئن ڈیموکریٹک فورسز‘ (ایس ڈی ایف) سے بھی ہے۔
ترک وزارت دفاع نے عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وائی پی جی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
خیال رہے کہ ترکی جسے کر تنظیم وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔
امریکہ داعش کے خلاف جاری لڑائی میں وائی پی جی کو ایک کلیدی اتحادی سمجھتا رہا ہے۔
گزشتہ ماہ ترکی نے شام کے علاقے تل ابیض کا کنٹرول حاصل کیا ہے۔ اس کے بعد سے ترک فوج اور شام میں اس کی اتحادی ملیشیا نے شمال مشرقی شام میں ایس ڈی ایف کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔
ترکی کی شام میں کارروائی کے آغاز سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خطے سے امریکی فوج کے انخلا کا اعلان کیا تھا۔
ترکی اور امریکہ کے مابین 17 اکتوبر کو ہونے والے جنگ بندی کے سمجھوتے کے ایک حصے کے طور پر شام میں تل ابیض اور راس العین کے درمیان ایک طویل پٹی پر ’سیف زون‘ قائم کیا جا رہا ہے۔ جس کے تحت وائی پی جی کو بھی یہ علاقہ خالی کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
ایس ڈی ایف کے ایک دھڑے سیریئن ملٹری کونسل ایسے کسی بھی معاہدے یا سیف زون کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ سیریئن ملٹری کونسل نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ مشرقی اور جنوبی راس العین میں ترک اور جہادی دھڑوں کی جانب سے جاری حملوں کے خلاف ایس ڈی ایف جائز کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ خبور اور تل تمر کے علاقوں کا بھر پور دفاع کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ دو روز قبل جمعے کو ترک اور روسی فوج نے مشترکہ طور پر شمالی شام میں گشت شروع کیا ہے تاکہ کرد فورسز کا انخلا یقینی بنایا جا سکے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ترکی کی شام میں کارروائی کے نتیجے میں ایک لاکھ 80 ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
شمالی شام میں مقامی ڈاکٹروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ جنگ بندی ہونے کے باوجود اب بھی شہریوں کی ہلاکت و زخمی ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔