امریکہ کے وزیرِدفاع ایش کارٹر یورپ کے تین ملکی دورے پر روانہ ہوگئے ہیں جس کے دوران وہ روس کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور داعش سمیت دیگر امور پر اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کریں گے۔
اپنے دورے کے دوران ایش کارٹر جرمنی اور ایسٹونیا جائیں گے جس کے بعد وہ بیلجئم پہنچیں گے جہاں نیٹو کے وزرائے دفاع کا اجلاس ہونا ہے۔
ایسٹونیا کے دورے کے دوران ایش کارٹر بالٹک ریاستوں ایسٹونیا، لٹویا اور لتھوانیا کے وزرائے دفاع کے ساتھ ملاقات کریں گے جس میں روس کے ساتھ ان ریاستوں کے تعلقات کا معاملہ سرِ فہرست ہوگا۔
ان میں سے دو ملکوں کی سرحد روس سے لگتی ہے اور تینوں ملکوں کی حکومتیں اپنی حدود میں نیٹو کے فوجی دستوں کی تعیناتی کی درخواست کرچکی ہیں۔
لیکن نیٹو ریاستیں اس درخواست کو منظور کرنے میں پس و پیش کا شکار ہیں کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ ان ریاستوں میں فوجی دستوں کی تعیناتی رو س کے ساتھ برسوں قبل ہونے والے 'فاؤنڈنگ ایکٹ' معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی جس کا مقصد خطے میں دیرپا امن اور استحکام یقینی بنانا تھا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اپنے دورے کے دوران وزیرِ دفاع نیٹو اتحادیوں کو روس کے ساتھ تعلقات میں"سرد جنگ کے زمانے کی حکمتِ عملی ترک " کرنے کی تلقین کریں گے۔
امریکی حکام کے بقول ماسکو کی جانب سے یوکرین کے علاقے کرائمیا کے اپنے ساتھ زبردستی الحاق اور مشرقی یوکرین میں سرگرم باغیوں کی مسلسل مدد نے یورپ کو روس سے لاحق خطرات کی نوعیت تبدیل کردی ہے۔
امریکی وزیرِ دفاع پیر کو برلن میں ایک اہم خطاب بھی کریں گے جس میں امکان ہے کہ وہ روس سے لاحق خطرات اور نیٹو کی جوابی حکمتِ عملی پر امریکہ کی پالیسی کی وضاحت کریں گے۔
یورپ کے مختلف ملکوں میں امریکہ کے 65 ہزار فوجی اہلکار موجود ہیں اور امریکی حکومت اپنے یورپی اتحادیوں پر زور دیتی آئی ہے کہ وہ مشترکہ فوجی تعاون اور کارروائیوں میں اضافے اور نیٹو سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کی بہتر انجام دہی کو یقینی بنائیں۔
بیلجئم میں ہونے والے اجلاس کے دوران نیٹو وزرائے دفاع روس کے ساتھ تعلقات کے علاوہ عراق اور شام میں شدت پسند تنظیم داعش کے مقابلے کے لیے اتحاد کی سرگرمیوں میں اضافے کے امکان پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔
ایسٹونیا میں اپنے قیام کے دوران ایش کارٹر بحیرہ بالٹک میں ہونے والی تاریخ کی سب سے بڑی کثیر القومی فوجی مشقوں میں شریک امریکی جہاز 'یو ایس ایس سان انتونیو' کے عملے سے بھی ملاقات کریں گے۔
رواں ہفتے اختتام پذیر ہونے والی ان مشقوں میں 11 ملکوں کے 49 جنگی جہازوں، 60 ہوائی جہازوں اور پانچ ہزار سے زائد فوجی اہلکاروں نے شرکت کی تھی۔
بالٹک میں ہر سال ہونے والی ان مشقوں میں 2013ء تک روس بھی شریک ہوتا رہا ہے لیکن یوکرین بحران کے بعد سے روس کو ان میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔