پاکستان میں ایک کالعدم مذہبی تنظیم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کے خلاف دو مقدمات انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کی بجائے ذیلی عدالت میں چلائیں جائیں گے۔
ہفتہ کو پشاور میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے ملزم کی طرف سے دائر درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان مقدمات کو مقامی عدالت کے سپرد کرنے کا کہا۔
صوفی محمد کے وکیل عادل مجید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ مقدمات اب سوات میں سیشن جج کی عدالت میں چلائے جائیں گے۔
"ایک گراسی گراؤنڈ کا کیس تھا 2009ء کا اور ایک تیمرگرہ میں ریسٹ ہاؤس گراؤنڈ کا۔ ہم نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ان مقدمات میں دہشت گردی کی دفعات نہیں لگتیں لہذا انھیں سننے کا اختیار انسداد دہشت گردی کی عدالت کو نہیں۔ گزشتہ پیشی پر دلائل مکمل ہوئے تھے تو اب عدالت نے کہا کہ یہ عام عدالت کو بھجوا دیے جائیں۔"
صوفی محمد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کے سسر ہیں اور وہ ملک میں سخت اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
رواں سال کے اوئل میں ہی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے مولانا صوفی محمد پر بغاوت کے مقدمے میں فرد جرم عائد کی تھی۔
ان کے خلاف 2009ء میں دیر کے علاقے تیمرگرہ میں ایک اجتماع سے خطاب میں ملک میں رائج جمہوریت اور جمہوری حکومت کو غیر اسلامی قرار دیتے پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
عدالت نے صوفی محمد سمیت چھ افراد پر فرد جرم عائد کی تھی لیکن ملزم نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے تمام الزامات کو مسترد کیا۔
دیگر ملزمان میں صوفی محمد کے دو بیٹے اور تین دیگر ساتھی شامل تھے۔