آج کے جدید دور میں لین دین کے طریقہ کار میں ایک بڑی جدت کیش ایپس کی صورت میں سامنے آئی جب لوگ نوٹوں اور سکوں کو گننے کے بجائے انہیں فون کے ذریعے فوری کیش ٹرانسفر کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں ایزی پیسہ اور جاز کیش جیسی ایپس سے تو زیادہ تر لوگ واقف ہیں۔ امریکہ میں اس قسم کی ٹرانسفرز کے لیے کئی ایپس ہیں جن میں سے چند ایپس گزشتہ چند برسوں میں خاصی مقبول ہوئیں ان میں Zelle, Venmo اور کیش ایپ شامل ہیں۔
ان ایپس کو Cash transfer apps بھی کہا جاتا ہے اور APP (Authorized Pushed Payments) کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ان ایپس کا استعمال چھوٹی موٹی رقوم جیسے دوستوں میں پیسوں کا لین دین، کسی سروس کے پیسے جیسے گھاس کاٹنے کی ادائیگی، اور ٹپس وغیرہ کے لیے خاصا عام ہے۔ یہ ایپس آپ کے بینک اکاؤنٹ سے منسلک ہوتی ہیں اور ان سے اکاؤنٹس سے رقوم نکالنا اور جمع کرنا کافی آسان ہوتا ہے۔
اب جہاں پیسے کے لین دین کے نئے طریقے ایجاد ہوتے ہیں، وہیں جرائم پیشہ افراد دولت لوٹنے کے نت طریقے بھی ایجاد کر لیتے ہیں۔ اور یہی ان کیش ایپس کے معاملے میں بھی ہو رہا ہے۔ امریکی سینیٹر ایلزبتھ وارن کے دفتر سے شائع ایک رپورٹ کے مطابق صرف Zelle پر دھوکہ دہی یا رقوم کی غیر مجاز منتقلی پچھلے سال 255 ملین ڈالر سے تجاوز کر گئی۔ آن لائن پیمنٹ ڈیلوری سروسز فراہم کرنے والے ادارے ACI Worldwide کی ایک ریسرچ کے مطابق امریکہ میں 2021 میں لوگ کیش ایپ فراڈ کے ذریعے 1630 ملین ڈالر سے محروم ہوئے۔ ریسرچ میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ رقوم 2026 تک 3080 ملین ڈالر تک بڑھ سکتی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عموماً بینک کسی فراڈ کی صورت میں اکاؤنٹ ہولڈر کے حقوق اور رقوم کی حفاظت کرتے ہیں، خصوصاً کریڈٹ کارڈ فراڈ کی صورت میں کھوئی ہوئی رقم اکاؤنٹ ہولڈر کو واپس مل جاتی ہے لیکن اگر آپ کسی کیش ایپ کے ذریعے فراڈ کا شکار ہوئے ہیں اور غلطی سے کسی نوسر باز کو پیسے دے چکے ہیں تو امریکی قانون کے مطابق بینک آپ کو ادائیگی کا پابند نہیں۔
یہاں یہ سوال یقیناً ذہن میں آتا ہے کہ آپ کے فون میں موجود ایپ جسے پاس ورڈز اور دیگر طریقوں سے محفوظ بنایا گیا ہے، وہاں سے آخر رقوم کا یہ فراڈ ہوتا کیسے ہے؟
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ان میں سے زیادہ تر رقوم اکاؤنٹ ہولڈر کی جانب سے ہی بھیجی جاتی ہیں مگر جب تک انہیں اپنے لوٹے جانے کی خبر ملتی ہے تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس قسم دھوکہ دہی میں ملوث افراد اپنے ٹارگٹ کی سائیکالوجی سے کھیلتے ہیں اور انہیں رقم بھیجنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
اس طرح کی دھوکہ دہی کا سب سے اہم ہتھیار ایمرجنسی کی صورت حال پیدا کرنا ہے جیسے یہ فیس یا رقم ابھی ادا نہ کی گئی تو آپ کو کوئی نقصان ہو سکتا ہے۔ دوسرا طریقہ ڈسکاؤنٹس کا ہے، جس میں صارف کو کیش ایپ سے ادائیگی کی صورت میں کسی بھی پراڈکٹ یا سروس کی اصل سے بہت کم قیمت بتائی جاتی ہے۔ مگر ادائیگی کے بعد نہ وہ پراڈکٹ ملتی ہے نہ ہی آفر دینے والا۔
ACIکے مطابق 37.8فیصد لوگ اسی دھوکے کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک اور بڑا دھوکہ محبت ہے۔ جی ہاں یہاں 18.4 فی صد لوگوں نے اپنے محبوب یا محبوبہ کو پیسے بھیجے اور ایموشنل اور فائنانشل دونوں نقصان اٹھائے۔ اس کے علاوہ انوسٹمینٹ، ایڈوانس پیمنٹ یا بلوں کی ادائیگی کے نام پر بھی کیش ایپس میں فراڈ ہو رہے ہیں۔کسی کی سوشل میڈیا انفارمیشن چرا کر دوستوں سے پیسے مانگنا بھی اسی دھوکہ دہی کا ایک حصہ ہے۔
فوربز کے مطابق ایک اور طریقہ کار میں آپ کے اکاؤنٹ میں ایک بڑی رقم موصول ہوتی ہے اور آپ کو کال کر کے کہا جاتا ہے کہ یہ سب غلطی سے ہوا اور کال کرنے والے کو اس رقم کی فوری ضرورت ہے۔ آپ کال کرنے والے کو وہ رقم واپس بھیج دیتے ہیں۔ اب دراصل وہ رقم کسی کے کریڈٹ کارڈ سے چرائی گئی ہوتی ہے اور رقم کا اصل مالک جب فراڈ رپورٹ کرتا ہے تو اس کے سرے آپ کے اکاؤنٹ تک پہنچتے اور اصل چورغائب۔
جہاں بینک ان رقوم کی متاثرین کو ادائیگی کی ذمہ داری نہیں لیتے وہیں رپورٹس کے مطابق کسٹمرز ایسے واقعات کے بعد بینک پر بھروسہ چھوڑ دیتے ہیں اور زیادہ تر اپنا اکاؤنٹ بند کر دیتے ہیں۔ اوراس طرح بینکوں کو ایک نئے نقصان کا سامنا ہوتا ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے کئی بڑے بینکوں نے Zelle کے متاثرہ کسٹمرز کو رقوم کی ادائیگی کے طریقہ کار کی تشکیل پر کام شروع کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ کنزیومر فنانشل پروٹیکشن بیورو بھی ایسے دھوکوں کے شکار صارفین کو بینکوں کی جانب سے ادائیگی کے لیے ایک گائیڈ لائن تیار کر رہا ہے۔