واشنگٹن —
پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے انتخابی جلسے کے نزدیک ہونے والے دھماکے میں کم از کم 20 افراد ہلاک اور 35 زخمی ہوگئے ہیں۔
پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل 'پی ٹی وی' کے مطابق دھماکہ منگل کی شب صوبائی دارالحکومت کے علاقے یکہ توت میں ہوا جہاں نزدیک ہی صوبہ خیبر پختونخوا کی سابق حکمران جماعت 'اے این پی' کا جلسہ ہو رہا تھا۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق 'تحریکِ طالبان پاکستان' نے اپنے ایک بیان میں پشاور حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
پشاور پولیس کے سربراہ لیاقت علی نے بتایا ہے کہ دھماکہ خودکش حملے کے نتیجہ تھا اور حملہ آور نے 'اے این پی' رہنمائوں کی گاڑی کے نزدیک آکر خود کو دھماکہ سے اڑا دیا۔
اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ’ڈیلی پاکستان‘ کے نیوز ایڈیٹر اسلم درانی، علاقہ ایس ایچ او اور پانچ پولیس اہلکاروں سمیت بیس افراد شامل ہیں۔
پشاور شہر کے 'لیڈی ریڈنگ' اسپتال کی انتطامیہ کا کہنا ہے کہ وہاں لائے جانے والے زخمیوں میں سے نو کی حالت تشویش ناک ہے۔
'پی ٹی وی' کے مطابق جلسے میں اے این پی کے رہنما اور سابق وزیرِ ریلوے غلام احمد بلور اور ان کے بھتیجے اور صوبے کے سابق سینئر وزیر بشیر بلور کے بیٹے ہارون بلور بھی شریک تھے۔
'پی ٹی وی' نے دھماکے میں غلام احمد بلور کے معمولی زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
غلام احمد بلور کے بھائی بشیر بلور گزشتہ سال 22 دسمبر کو ایک خود کش حملے میں ہلاک ہوگئے تھے جس کی ذمہ داری پاکستانی طالبان نے قبول کی تھی۔
خیال رہے کہ 'تحریکِ طالبان پاکستان' نے 'اے این پی' کی انتخابی ریلیوں اور جلسوں پر حملے کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے اور حالیہ دنوں میں صوبے کے مختلف علاقوں میں پارٹی کے انتخابی امیدواران اور سرگرمیوں کو بم حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
پشاور کے ایس پی سٹی خالد ہمدانی نے جائے واقعہ پر صحافیوں کو بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق دھماکے میں 4 سے 5 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا۔
خالد ہمدانی کے مطابق انتخابی سرگرمیوں میں تیزی آنے کے بعد اس طرح کے حملوں کے خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے جن سے نبٹنے کے لیے پولیس مکمل طور پر تیار ہے۔
ایس پی سٹی کے مطابق منگل کو بھی پشاور شہر میں متاثرہ جلسے سمیت 40 سے زائد سیاسی اجتماعات ہورہے تھے جنہیں مکمل سیکیورٹی فراہم کی گئی تھی۔
پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل 'پی ٹی وی' کے مطابق دھماکہ منگل کی شب صوبائی دارالحکومت کے علاقے یکہ توت میں ہوا جہاں نزدیک ہی صوبہ خیبر پختونخوا کی سابق حکمران جماعت 'اے این پی' کا جلسہ ہو رہا تھا۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق 'تحریکِ طالبان پاکستان' نے اپنے ایک بیان میں پشاور حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
پشاور پولیس کے سربراہ لیاقت علی نے بتایا ہے کہ دھماکہ خودکش حملے کے نتیجہ تھا اور حملہ آور نے 'اے این پی' رہنمائوں کی گاڑی کے نزدیک آکر خود کو دھماکہ سے اڑا دیا۔
اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ’ڈیلی پاکستان‘ کے نیوز ایڈیٹر اسلم درانی، علاقہ ایس ایچ او اور پانچ پولیس اہلکاروں سمیت بیس افراد شامل ہیں۔
پشاور شہر کے 'لیڈی ریڈنگ' اسپتال کی انتطامیہ کا کہنا ہے کہ وہاں لائے جانے والے زخمیوں میں سے نو کی حالت تشویش ناک ہے۔
'پی ٹی وی' کے مطابق جلسے میں اے این پی کے رہنما اور سابق وزیرِ ریلوے غلام احمد بلور اور ان کے بھتیجے اور صوبے کے سابق سینئر وزیر بشیر بلور کے بیٹے ہارون بلور بھی شریک تھے۔
'پی ٹی وی' نے دھماکے میں غلام احمد بلور کے معمولی زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
غلام احمد بلور کے بھائی بشیر بلور گزشتہ سال 22 دسمبر کو ایک خود کش حملے میں ہلاک ہوگئے تھے جس کی ذمہ داری پاکستانی طالبان نے قبول کی تھی۔
خیال رہے کہ 'تحریکِ طالبان پاکستان' نے 'اے این پی' کی انتخابی ریلیوں اور جلسوں پر حملے کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے اور حالیہ دنوں میں صوبے کے مختلف علاقوں میں پارٹی کے انتخابی امیدواران اور سرگرمیوں کو بم حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
پشاور کے ایس پی سٹی خالد ہمدانی نے جائے واقعہ پر صحافیوں کو بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق دھماکے میں 4 سے 5 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا۔
خالد ہمدانی کے مطابق انتخابی سرگرمیوں میں تیزی آنے کے بعد اس طرح کے حملوں کے خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے جن سے نبٹنے کے لیے پولیس مکمل طور پر تیار ہے۔
ایس پی سٹی کے مطابق منگل کو بھی پشاور شہر میں متاثرہ جلسے سمیت 40 سے زائد سیاسی اجتماعات ہورہے تھے جنہیں مکمل سیکیورٹی فراہم کی گئی تھی۔