زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے 37 سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد بالآخر مستعفی ہوگئے ہیں جس کے بعد دارالحکومت ہرارے اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں جشن کا سا سماں ہے۔
صدر موگابے کے استعفے کا اعلان منگل کو پارلیمان کے اجلاس کے دوران کیا گیا جو صدر کے مواخذے کی تحریک پر کارروائی کے لیے بلایا گیا تھا۔
زمبابوے کی حکمران جماعت 'زانو – پی ایف' کے رہنماؤں نے دھمکی دی تھی کہ اگر 93 سالہ صدر موگابے نے اپنے عہدے سے استعفیٰ نہ دیا تو پارلیمان ان کا مواخذہ کرے گی۔
منگل کو اجلاس کے آغاز کے کچھ دیر بعد ہی اسپیکر جیکب موڈینڈا نے صدر کے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ان کا تحریری استعفیٰ پڑھ کر سنایا۔
تاہم صدر یا ان کے دفتر کی جانب سے تاحال استعفے کی کوئی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی ہے۔
صدر موگابے 1980ء میں زمبابوے کی برطانیہ سے آزادی کے بعد سے ملک پر حکمران تھے۔ وہ پہلے ملک کے وزیرِ اعظم اور بعد ازاں صدر بنے تھے۔ انہیں دنیا کے کسی بھی ملک کے سب سے عمر رسیدہ سربراہ ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل تھا۔
صدر موگابے کے استعفے کا اعلان ہوتے ہی دارالحکومت ہرارے میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور جشن منایا۔ لوگوں نے سڑکوں پر رقص کیا، نعرے لگائے اور ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔
زمبابوے میں گزشتہ ہفتے فوج نے دارالحکومت اور کئی ریاستی اداروں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد صدر موگابے کو ان کی رہائش گاہ پر نظر بند کردیا تھا۔
فوج نے یہ اقدام صدر موگابے کی جانب سے اپنے نائب صدر ایمرسن ننگگوا کو چھ نومبرکو برطرف کیے جانے کے جواب میں اٹھایا تھا جو زمبابوے کی تحریکِ آزادی کے ایک اہم رہنما ہیں۔
ننگگوا فوج اور حکمران طبقے میں خاصے مقبول ہیں اور انہیں صدر موگابے کا جانشین سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن ان کی اچانک برطرفی سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملی تھی کہ صدر موگابے اپنی اہلیہ گریس موگابے کو اپنا جانشین نامزد کرنے والے ہیں جس پر فوجی قیادت اور حکمران جماعت کے ایک دھڑے کو تحفظات تھے۔
فوج کی جانب سے دارالحکومت کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد حکمران جماعت نے صدر موگابے کا پارٹی صدارت سے برطرف کرتے ہوئے ان کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔
تاہم اتوار کو ٹیلی ویژن پر قوم سے اپنے خطاب میں صدر موگابے نے مستعفی ہونے کا کوئی عندیہ نہیں دیا تھا اور اس کے برعکس انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ آئندہ ماہ ہونے والے حکمران جماعت کی کانگریس کی اجلاس کی صدارت کریں گے۔
صدر موگابے نے منگل کو اپنی کابینہ کا اجلاس بھی طلب کیا تھا لیکن اطلاعات کے مطابق 17 رکنی کابینہ کے صرف چند وزرا ہی اجلاس میں شرکت کے لیے ایوانِ صدر پہنچے تھے۔
صدر کی جانب سے مستعفی نہ ہونے کے بعد پارلیمان نے منگل کو ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی کا آغاز کیا تھا لیکن اس کے دوران ہی پارلیمان کو صدر کا استعفیٰ موصول ہوگیا۔
حکمران جماعت کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ برطرف نائب صدر ایمرسن ننگگوا، جو برطرفی کے بعد بیرونِ ملک فرار ہوگئے تھے، وطن واپس پہنچ رہے ہیں اور وہ بدھ یا جمعرات کو ملک کے نئے صدر کا حلف اٹھائیں گے۔
امریکہ سمیت کئی ملکوں اور بین الاقوامی رہنماؤں نے صدر موگابے کے استعفے کا خیر مقدم کرتے ہوئے ملک میں جلد از جلد شفاف انتخابات کرانے پر زور دیا ہے۔