اگر آپ کو امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر لوڈرڈیل کےہالی وڈ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر جانے کا اتفاق ہو تو وہاں آپ کو ایئرپورٹ کے آس پاس اور گاڑیوں کی پارکنگ میں بندر گھومتے، اچھلتے کودتے ہوئے اور کھانے پینے کی چیزوں پر جھپٹتے نظر آئیں گے۔ وہ اتنے نڈر اور بے باک ہیں کہ ہاتھوں سے کھانے کی چیزیں لے اڑتے ہیں۔ لیکن وہ پارکنگ ایریا کی نگران خاتون ہیرلن کیلڈرا کا بہت لحاظ کرتے ہیں، کیونکہ وہ ان کے لیے کھانے کی چیزیں لاتی ہیں۔
اس سے ملتے جلتے مناظر دنیا کے سات عجائبات میں شامل بھارت کے تاج محل کی سیاحت پر جانے والوں کی نظروں سے بھی گزرتے ہیں۔ ہندو دھرم میں چونکہ بندروں کو مقدس مقام حاصل ہے اس لیے وہ نہ صرف اس ملک کے اکثر شہروں اور قصبوں میں آزادانہ اچھلتے کودتے نظر آتے ہیں بلکہ ان کی چھنا جھپٹیوں کو بھی عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
فلوریڈا کے ان بندروں کو اپنی اچھل کود اور شرارتوں کے باوجود سلیبرٹی یعنی انتہائی "اہم شخصیات" کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے بارے میں مقامی اخبارات اور ٹی وی چینل اکثر رپورٹیں اور خبریں شائع کرتے رہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان بندروں کا تعلق امریکہ سے نہیں ہے، کیونکہ اس براعظم پر بندر ہوتے ہی نہیں۔ اور آپ کو یہ جان کر مزید حیرت ہو گی کہ یہ مفرور اور بھگوڑے بندر ہیں۔ان کے مزاج میں ایک طرح کی جارحیت بھی پائی جاتی ہے۔ محکمہ جنگلی حیات کے قانون کے تحت ان جانوروں کو مار دیا جاتا ہےجن سے جنگلی حیات کی مقامی نسلوں کو خطرہ ہو، لیکن ان بندروں کے معاملے میں محکمہ نرمی برتتا ہے۔
یہ وروٹ نسل کے بندر ہیں اور ان کا تعلق براعظم افریقہ سےہے۔ 1940 کے عشرے میں اس نسل کے لگ بھگ ایک درجن بندروں کو مقامی چڑیا گھر کے لیے افریقہ سے منگوایا گیا تھا۔ ان میں کچھ بندر تقریباً 70 سال پہلے چڑیا گھر سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کا ٹھکانہ ایئرپورٹ کے قریب مینگروز کا جنگل بنا، جو 15 سو ایکٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ مینگروز کے پودے اور درخت انتہائی گھنے اور دلدلی زمینوں میں ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنے بڑے اور دشوار گزار جنگل میں چند بندروں کو ڈھونڈ کر پکڑنا آسان نہیں ہے، اس لیے وہ بڑے مزے اور آزادی سے رہ رہے ہیں ۔جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے ان 70 برسوں میں ان کی تقریباً 40 اولادیں پروان چڑھ چکی ہیں۔ جیوگرافک نیشنل کے 2022 کےایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ان کی تعداد 600 کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔
ڈیبورا ولیمز ، لین یونیورسٹی میں سائنس کی پروفیسر ہیں۔ وہ 2014 سے ان بندروں پر تحقیق کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں افریقہ میں اس نسل کے بندروں کو جنگلی درندوں ، عقابوں اور سانپوں سے خطرہ ہے جو انہیں مار کر کھا جاتے ہیں، جب کہ یہاں لوڈرڈیل میں گاڑیاں اور شکاری ان کی جان کا عذاب بنے ہوئے ہیں۔ ایک سٹرک جنگل کے قریب سے گزرتی ہے، جس پر کئی بار بندر تیز رفتار گاڑیوں کی زد میں آ کر کچلے جاچکے ہیں۔ شکاری بھی چوری چھپے انہیں گھات لگا کر پکڑ لیتے ہیں اور مہنگے داموں بیچ دیتے ہیں۔شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ امریکہ میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو بندروں کو پالتو جانوروں کی طرح اپنے گھروں میں رکھتے ہیں۔
وروٹ نسل کے بندروں کی رنگت سرمئی مائل سیاہ ہوتی ہے جس میں سبز رنگ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یہ مخصوص رنگت درختوں کی شاخوں اور پتوں میں چھپنے میں انہیں مدد دیتی ہے ۔ نر بندر کی لمبائی تقریباً دو فٹ اور وزن 15 پاؤنڈ ہوتا ہے جب کہ مادہ بندر ڈیڑھ فٹ تک ہی پہنچ پاتی ہے اور اس کا وزن 10 پاؤنڈ کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ اس نسل کے بندر عموماً 20 برس تک زندہ رہتے ہیں۔
بندروں کا اپنا ایک نظام حیات ہے اور وہ ایک طرح سے معاشرتی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ بالغ ہونے تک اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں۔ پانچ سال کی عمر میں جب وہ بلوغت کو پہنچنے ہیں تو وہ اپنا جیون ساتھی تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ مل کر اپنی علیحدہ زندگی شروع کرتے ہیں۔
بندر عموماً زیادہ بڑے گروہوں میں نہیں رہتے۔ جب ان کا گروہ بڑا ہو جاتا ہے تو وہ دو حصوں میں بٹ جاتا ہے اور جنگل میں اپنے لیے کوئی دوسرا علاقہ ڈھونڈ لیتا ہے۔
جنگلی حیات کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ فلوریڈا کے اس جنگل میں بندر چار گروہوں میں بٹ چکے ہیں اور جنگل کے مختلف حصوں میں رہ رہے ہیں۔ لوگوں کے مشاہدے میں زیادہ تر وہی بندر آتے ہیں جو جنگل کے اس حصے میں آباد ہیں جو ایئرپورٹ کے قریب ہے۔
بندر دن بھر جنگل میں رہتے ہیں۔ جب سورج ڈھلنے لگتا ہے تو وہ اپنے "ڈنر" کی ضیافت کے لیے ائیرپورٹ کا رخ کرتے ہیں۔ اس علاقے میں محکمہ جنگلی حیات کے بورڈ نظر آتے ہیں جن پر لکھا ہے کہ جنگلی حیات کو کھانے کی چیزیں ڈال کر بھکاری نہ بنائیں، انہیں اپنی خوراک خود تلاش کرنے دیں۔ لیکن لگتا ہے کہ اس انتباہ کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ لوگ انہیں کچھ نہ کچبھ ڈال دیتے ہیں۔ پروفیسر ولیمیز بتاتی ہیں کہ بندروں کی خوراک یوں تو جنگلی پھل وغیرہ ہیں ، لیکن انہیں وہ چیزیں بہت پسند ہیں جو انسانی خوراک کا حصہ ہیں، خاص طور پر میٹھی اور نمکیں چیزیں تو وہ بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ ایئرپورٹ پر آنے کی ان کی ایک وجہ اپنی پسند کی خوراک حاصل کرنا بھی ہے۔
یہی وہ موقع ہوتا ہے جب وہ اپنی اچھل کود اور شرارتوں سے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتے ہیں اور وہ بے اختیار ہو کر اپنے سمارٹ فون کے کیمرے میں ان کی یاد محفوظ کرنے لگتے ہیں۔کچھ لوگ تو یہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح بندروں کے ساتھ ان کی بھی تصویر آجائے۔
لوگوں کے لیے خاص طور پر وہ مناظر بہت پرلطف ہوتے ہیں، جب کوئی طیارہ اپنی گرج دار آواز کے ساتھ ایئرپورٹ کے قریب آتا ہے اور بندر خوف کے مارے اچھلتے اور چیختے ہوئے ایک دوسرے سے لپٹ جاتے ہیں۔ لیکن اکثر ان میں لڑائیاں بھی ہوتی ہیں۔ ڈیبورا ولیمز انہیں سجھاتی ہیں کہ اچھے بچے آپس میں لڑتے نہیں۔ ولیمز کو ان کے ساتھ سات سال ہو چکے ہیں۔ اب وہ ان کی بات سنتے ہیں۔ جب وہ کہتی ہیں کہ آپس میں نہیں لڑنا تو وہ چپ چاپ دو ر ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر سونے کے لیے واپس درختوں پر چلے جاتے ہیں۔ شاید سوتے میں وہ ایک شاندار صبح کے خواب بھی دیکھتے ہوں گے۔