کراچی —
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 2 اپریل کو اعصابی بیماری آٹزم سے آگاہی کا دن منایا جاتا ہے۔ آٹزم سے متاثرہ بچوں میں بولنے، سمجھنے، سیکھنے کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک میں اس بیماری کی وجوہات جاننے کی کوششیں کی گئیں لیکن تا حال حتمی وجوہات کا تعین نہیں کیا جا سکا۔
ایسے بچے کسی بھی بات کو کئی بار دہرانے کے بعد سمجھتے ہیں متاثرہ بچے اپنی زندگی میں مگن رہتے ہیں اور صلاحیتیں متاثر ہونے کے باعث معاشرے میں اہم کردار نہیں ادا کر سکتے۔
لیکن اگر انھیں اور ان کے والدین کو بہتر تربیت دی جائے تو اس بیماری کے شکار خاص سمجھے جانے والے بچے عام زندگی گزار سکتے ہیں۔
پاکستان کے شہر کراچی میں آٹزم سے متاثرہ بچوں کی تربیت کا ادارہ"سینٹر فار آٹزم چلڈرن کراچی" کے نام سے قائم ہے جہاں بچوں اور والدین کی تربیت کی جاتی ہے۔
سینٹر فارآٹزن کراچی کے ادارے کی ڈائریکٹر روحی معروف نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ’’آٹزم سے متاثرہ بچے خصوصی توجہ چاہتے ہیں، اگر بہتر تربیت و توجہ نہ ملے تو ایسے بچے اپنی دنیا میں مگن ہو جاتے ہیں اور یہ عادت بن کر ساری زندگی ان کے ساتھ رہتی ہے۔ آٹزم سے متاثرہ بچوں کے والدین سخت پریشان رہتے ہیں ایسی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے "سینٹر فار آٹزم چلڈرن" قائم کیا گیا۔
روحی معروف نے بتایا کہ اُن کا ادارہ پچھلے 4سال سے آٹزم سے متاثرہ بچوں سمیت ان کے والدین کی کو بغیر کسی فیس کے تربیت فراہم کر رہا ہے۔
’’یہ اسکول نہیں بلکہ تربیتی ادارہ ہے جہاں ایک وقت میں صرف 5 سے 6 بچوں اور ان کے والدین کو تربیت فراہم کیجاتی اسی طرح باقی بچوں کو عمر کے حساب سے الگ الگ کلاسیں دیجاتی ہیں اس ادارے میں تربیت سمیت سکھایا جاتا ہے کہ بچہ معاشرے میں رہ کر کیسے عام انسان کی طرح زندگی گزارسکتا ہے‘‘۔
روحی معروف کہتی ہیں کہ پاکستان میں آٹزم سے متاثرہ بچوں کی تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ ہمارے ملک میں ایسے بچوں کی تعلیم اور تعداد کا کوئی مکمل نظام موجود نہیں۔
سینٹر فار آٹزم چلڈرن کراچی کی ڈائریکٹر اور ٹیچر روحی معروف کا مزید کہنا تھا کہ" اگر پاکستان کے دیگر شہروں میں آٹزم کے مزید ادارے قائم ہوں یا بہتر استاد کی نگرانی میں تعلیم و تربیت فراہم کیجائے تو آٹزم سے متاثرہ بچے بھی معاشرے میں عام زندگی گزارنےکےساتھ ساتھ ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ایسے بچے کسی بھی بات کو کئی بار دہرانے کے بعد سمجھتے ہیں متاثرہ بچے اپنی زندگی میں مگن رہتے ہیں اور صلاحیتیں متاثر ہونے کے باعث معاشرے میں اہم کردار نہیں ادا کر سکتے۔
لیکن اگر انھیں اور ان کے والدین کو بہتر تربیت دی جائے تو اس بیماری کے شکار خاص سمجھے جانے والے بچے عام زندگی گزار سکتے ہیں۔
پاکستان کے شہر کراچی میں آٹزم سے متاثرہ بچوں کی تربیت کا ادارہ"سینٹر فار آٹزم چلڈرن کراچی" کے نام سے قائم ہے جہاں بچوں اور والدین کی تربیت کی جاتی ہے۔
سینٹر فارآٹزن کراچی کے ادارے کی ڈائریکٹر روحی معروف نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ’’آٹزم سے متاثرہ بچے خصوصی توجہ چاہتے ہیں، اگر بہتر تربیت و توجہ نہ ملے تو ایسے بچے اپنی دنیا میں مگن ہو جاتے ہیں اور یہ عادت بن کر ساری زندگی ان کے ساتھ رہتی ہے۔ آٹزم سے متاثرہ بچوں کے والدین سخت پریشان رہتے ہیں ایسی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے "سینٹر فار آٹزم چلڈرن" قائم کیا گیا۔
روحی معروف نے بتایا کہ اُن کا ادارہ پچھلے 4سال سے آٹزم سے متاثرہ بچوں سمیت ان کے والدین کی کو بغیر کسی فیس کے تربیت فراہم کر رہا ہے۔
’’یہ اسکول نہیں بلکہ تربیتی ادارہ ہے جہاں ایک وقت میں صرف 5 سے 6 بچوں اور ان کے والدین کو تربیت فراہم کیجاتی اسی طرح باقی بچوں کو عمر کے حساب سے الگ الگ کلاسیں دیجاتی ہیں اس ادارے میں تربیت سمیت سکھایا جاتا ہے کہ بچہ معاشرے میں رہ کر کیسے عام انسان کی طرح زندگی گزارسکتا ہے‘‘۔
روحی معروف کہتی ہیں کہ پاکستان میں آٹزم سے متاثرہ بچوں کی تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ ہمارے ملک میں ایسے بچوں کی تعلیم اور تعداد کا کوئی مکمل نظام موجود نہیں۔
سینٹر فار آٹزم چلڈرن کراچی کی ڈائریکٹر اور ٹیچر روحی معروف کا مزید کہنا تھا کہ" اگر پاکستان کے دیگر شہروں میں آٹزم کے مزید ادارے قائم ہوں یا بہتر استاد کی نگرانی میں تعلیم و تربیت فراہم کیجائے تو آٹزم سے متاثرہ بچے بھی معاشرے میں عام زندگی گزارنےکےساتھ ساتھ ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔