افغانستان کے مختلف حصوں میں جمعرات کو ہونے والےدھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد 30 سے تجاوز کر گئی ہے، سب سے زیادہ جانی نقصان مزار شریف کی شیعہ مسجد میں ہوا جس کی ذمے داری شدت پسند تنظیم، دولتِ اسلامیہ (داعش) نے قبول کی ہے۔
مزار شریف انتظامیہ کے مطابق دھماکے میں خواتین اور بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ اب بھی بعض افراد کی حالت تشویش ناک ہے۔
جمعرات کو ہی شمالی قندوز میں سائیکل میں نصب بارودی مواد پھٹنے کے نتیجے میں کم از کم چار افراد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔
پولیس کے مطابق دھماکے کی زد میں آنے والی گاڑی میں کچھ مکینک سوار تھے جو کہ طالبان کے لیے کام کر رہے تھے۔
جمعرات کو ہی ایک اور واقعے میں کابل میں سڑک کنارے نصب بم پھٹنے کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہوئے جس میں ایک بچہ بھی شمال ہے۔
مزار شریف سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا کہ وہ قریبی بازار میں خریداری کر رہی تھی کہ اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے کے نتیجے میں دکانوں کے شیشے ٹوٹ کر بکھر گئے اور ہر طرف افرا تفری پھیل گئی۔
یاد رہے کہ یہ دھماکے کابل میں ہزارہ شیعہ اکثریتی علاقے، دشت برچی، میں عبدالرحیم شہید اسکول میں ہونے والے دھماکوں کے دو روز بعد ہوئے جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کم از کم نو افراد ہلاک جب کہ 19 زخمی ہوئے تھے۔
نعمت اللہ اسی اسکول میں بارہویں جماعت کے طالبعلم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ معمول کے مطابق اپنی کلاس میں موجود تھے کہ اچانک ایک زوردار دھماکے کی گونج سنی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ یہ دھماکہ اتنا زور دار تھا کہ ان کے کان بند ہو گئے اور سکتہ طاری ہو گیا۔
نعمت اللہ کے مطابق ہوش میں آنے کے بعد وہ تیزی سے مین گیٹ کی جانب دوڑے، تاہم گارڈ نے بتایا کہ دھماکہ دوسرے گیٹ کے سامنے ہوا ہے جسے طلبہ چھٹی کے بعد استعمال کرتے ہیں۔
نعمت اللہ کے مطابق جیسے ہی وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے خون میں لت پت بچوں کو زمین پر گرے ہوئے پایا۔ ان میں زیادہ تر ایسے بچے تھے جنہیں وہ اکثر اسمبلی کے دوران دیکھتے تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ پڑھنا چاہتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو نشانہ بنا کر دہشت گرد طلبہ کے حوصلے پست کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی اپنی تعلیم ادھوری نہیں چھوڑیں گے بلکہ دھماکوں کے باوجود اسکول آتے رہیں گے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ اگست کے بعد سے ملک میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے۔ تاہم حالیہ عرصے میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے جن میں بیشتر واقعات کی ذمے داری شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) نے قبول کی ہے۔
طالبان کا اصرار ہے کہ ان کے جنگجوؤں نے ملک بھر میں داعش کو شکست دے دی ہے تاہم دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ داعش ابھی بھی طالبان کے لیے سیکیورٹی چیلنج ہے۔
افغانستان کے لیے اقوام ِمتحدہ کی جانب سے انسانی حقوق کے حوالے سے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ جمعرات کو ہونے والے دھماکوں نے افغانستان کو ہلا کر دکھ دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ داعش جیسی تنظمیں طالبان کے لیے مسلسل دردِ سر بنی رہیں گی۔
سینئر تجزیہ کار احمد خان کہتے ہیں کہ طالبان داعش کے خلاف پہلے بھی لڑے ہیں اور اب بھی ان کے خلاف بھر پور کارروائیاں کر رہے ہیں، کیونکہ طالبان داعش سے لڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
گزشتہ دنوں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے احمد خان کا کہنا تھا کہ افغانستان گزشتہ 50 سال سے حالتِ جنگ میں ہے۔ ملک کا سیاسی، تعلیمی اور اقتصادی نظام شدید مشکلات سے دوچار ہے۔
اُن کے بقول داعش کے پاس چوں کہ سرمایہ ہے اس لیے وہ نوجوان نسل کو ورغلانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
لیکن ساتھ ساتھ وہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ کچھ طاقتیں نہیں چاہتیں کہ افغانستان میں دیرپا امن قائم رہے۔