چیٹ جی پی ٹی تیار کرنے والی مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کی کمپنی کے سربراہ نے منگل کے روز کانگریس میں ایک سماعت کے دوران کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طاقت سے منسلک خطرات کو لگام دینے کے لیے حکومت کی مداخلت ضروری ہے۔
دوسری جانب ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ماہرین کے ایک گروپ نے مشورہ دیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی مصنوعات تیار کرنے والی کمپنیوں کو اپنے مزید طاقت ور ایپ اور ٹولز بنانے کا عمل چھ ماہ کے لیے روک دینا چاہیے تاکہ معاشرے کو ان کے خطرات اور مضمرات پر غور کرنے کا موقع مل سکے۔
مصنوعی ذہانت کی کمپنی اوپن اے آئی کے سربراہ سییموئیل آلٹمین نے سینیٹ کی کمیٹی میں اپنی سماعت میں بتایا کہ ’’ ہمیں علم ہے کہ لوگ اس بارے میں فکر مند ہیں کہ جیسے جیسے یہ ٹیکنالوجی کمپنی ترقی کرتی ہے وہ ہمارے رہین سہن کے طریقوں کو کیسے تبدیل کرتی ہے اور ہم بھی یہی سوچتے ہیں‘‘۔
سان فرانسسکو میں قائم یہ سٹارٹ اپ کمپنی گزشتہ سال کے آخر میں ’چیٹ جی پی ٹی‘ منظرعام پر لانے کے بعد تیزی سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ چیٹ جی پی ٹی ، مصنوعی ذہانت کا ایک ایسا ایپ ہے جو انسانوں کی طرح کسی بھی سوال کا جواب خود تخلیق کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ جب اس سے کچھ پوچھا جاتا ہے تو وہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اس کا جواب دیتا ہے۔
ماہرین تعلیم اس لیے پریشان ہیں کہ طالب علم چیٹ جی پی ٹی کے اس ٹول یا ایپ کو اپنے ہوم ورک کے لیے استعمال کر سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ مصنوعی ذہانت کا تخلیقی ایپ لوگوں کو گمراہ کرنے ، جھوٹ پھیلانے اور کاپی رائٹ کے تحفظات کی خلاف ورزی کے لیے استعمال ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ ملازمتوں کے خاتمے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
اگرچہ ایسے کوئی فوری اشارے نہیں ہیں کہ کانگریس آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے متعلق نئے قوانین بنائے گی، جیسا کہ یورپی قانون ساز کر رہے ہیں۔ تاہم معاشرے کو اس سے منسلک خدشات کے پیش نظر آلٹمین اور دیگر ٹیک کمپنیوں کے سربراہوں کو اس ماہ کے شروع میں وائٹ ہاؤس میں بلایا گیا تھا اور امریکی ایجنسیوں سے یہ وعدہ کرنے کو کہا گیا تھا کہ وہ موجودہ معاشرتی حقوق اور صارفین کے تحفظ سے متعلق قوانین کو نقصان پہنچانے والے آرٹیفیشل انٹیلی جنیس پراڈکٹس کے خلاف کارروائی کریں۔
کنیٹی کٹ سے ڈیموکریٹ سینیٹر رچرڈ بلیو مینتھال نے، جو سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کی پرائیویسی، ٹیکنالوجی اور قانون کی ذیلی کمیٹی کے سربراہ ہیں، سماعت کا آغاز ایک ریکارڈ شدہ تقریر سے کیا جو سینیٹر بلیو مینتھال کی آواز جیسی لگتی تھی لیکن حقیقت میں وہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے تخلیقی ایپ سے بنائی جانے والی نقلی آواز تھی جو چیٹ جی پی ٹی کی لکھی ہوئی تقریر کر رہی تھی۔ اس ایپ کو ایوان میں بلیو مینتھال کی تقریریں سنوا ئی گئیں تھیں، جن کی مدد سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے طاقت ور ایپ نے ان کی آواز، لب و لہجہ ، انداز اور ان الفاظ کا چناؤ کیا جو وہ اپنی تقریر میں استعمال کرتے ہیں۔ چیٹ جی پی ٹی نے یہ سب کچھ اس وقت کیا جب اس سے سینیٹر نے پوچھا کہ میں اس سماعت کا آغاز کیسے کروں۔
بلیومینتھال نے کہا کہ چیٹ جی پی ٹی کا نتیجہ متاثر کن ہے لیکن سوچیں اس وقت کیا ہو گا اگر میں نے اس سے کچھ اور پوچھا ہوتا اور وہ یوکرین کے صدر کی جانب سے ہتھیار ڈالنے یا روسی صدر ولادی میر پوٹن کی قیادت کی توثیق کر دیتا۔
بلیو مینتھال نے مزید کہا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی کمپنیوں کو اپنے سسٹمز کی چانچ کرنی چاہیے اور انہیں اے آئی کا کوئی ایپ یا ٹول جاری کرنے سے پہلے اس کے خطرات کے بارے میں بھی بتانا چاہیے۔
چیٹ جی پی ٹی تیار کرنے والی سٹارٹ اپ کمپنی اوپن اے آئی 2015 میں قائم ہوئی تھی۔ اس کمپنی نے مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والے دیگر بھی کئی ایپ بنائے ہیں ۔ مائیکرو سافٹ نے سٹارٹ اپ میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور مصنوعی ذہانت کی تخلیقی ٹیکنالوجی کو اپنے سرچ انجن بنگ میں شامل کر لیا ہے۔ اب یہ محض سرچ انجن نہیں رہا بلکہ چیٹ جی پی ٹی کی طرح آپ کے سوالوں کے اپنے تیار کردہ جواب بھی فراہم کرتا ہے۔
ایک اور ٹیک کمپنی آئی بی ایم کی چیف پرائیویسی اینڈ ٹرسٹ آفیسر کرسٹینا مانٹگمری اور نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر گیری مارکس بھی اس سماعت میں شامل ہوئے۔ وہ ماہرین کے اس گروپ کا حصہ ہیں جنہوں نے اوپن اے آئی اور مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والی دیگر کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ اے آئی کے زیادہ طاقت ور ایپ اور ٹولز کی ترقی پر فی الحال کام روک دیں اور معاشرے کو چھ ماہ کے لیے ان کے مضمرات اور خطرات پر غور کرنے کا موقع دیں۔
سماعت کے پینل میں شامل میزوری کے ریپبلیکن سینیٹر جاش ہیلوے نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کی ترقی امریکیوں کے انتخابات، ان کی ملازمتوں اور سلامتی پر اس انداز سے تبدیلی لائے گی جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ’’ یہ سماعت یہ سمجھنے کی طرف پہلا اہم قدم ہے کہ کانگریس کو کیا کرنا چاہیے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹد پریس سے لی گئیں ہیں)