پاکستان کی معیشت میں ترسیلاتِ زر یعنی بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم کو ملک کی زندگی میں آکسیجن کا درجہ حاصل ہے اور یہ ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے اور جاری کھاتوں کے خسارے کو کم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
اس بات کا اندازہ ایسے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ مالی سال 22 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک پاکستان نے مجموعی طور پر 30 ارب ڈالر کی برآمدات کیں جب کہ بیرونِ ملک مقیم 90 لاکھ پاکستانیوں نے اسی عرصے میں لگ بھگ 30 ارب ڈالر کی رقوم پاکستان بھجوائیں۔
اس رقم سے پاکستان کے جاری کھاتوں کے خسارے کو کم کرنے میں مدد ملی جس کے باعث گزشتہ مالی سال کے اختتام پر خسارہ 17.4 ارب ڈالر رہا۔
البتہ رواں مالی سال میں اب تک کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے رقم بھجوانے کے سلسلے میں کمی آئی ہے۔
اعداد و شمار پر نظر ڈالنے سے قبل یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر بیرونِ ملک مقیم پاکستانی رقم کیوں کم بھجوا رہے ہیں؟
معاشی اشاریوں پر نظر رکھنے والے نجی ادارے میٹیس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر کہتے ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی دنیا میں جاری کساد بازاری یعنی سست ہوتی معاشی ترقی کا سامنا ہے اور اس وجہ سے ان کی اپنی آمدنی میں کمی آئی ہے یا وہ بھی مہنگائی کی لہر کا شکار ہیں۔
خیال رہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)نے توقع ظاہر کی ہے کہ دنیا بھر میں مہنگائی کی شرح اس سال سات فی صد رہے گی۔ اگرچہ یہ شرح سال 2022 کے مقابلے میں کم ہے لیکن اب بھی یہ دنیا کے کئی ممالک میں کافی بلند ہے۔
سعد بن نصیر نےایک اور وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ روپے کی قدر میں زبردست گراوٹ کی وجہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے وطن میں کم رقم بھیج رہے ہیں۔
انہوں نے مثال دی کہ اگر کوئی شخص گزشتہ سال ایک ہزار ڈالر بھجوا رہا تھا تو پاکستان میں اس کے خاندان کو ایک لاکھ 85 ہزار روپے مل رہے تھے جب کہ ایک سال میں روپے کی قدر میں شدید کمی کی وجہ سے اب وہی رقم دو لاکھ 85 ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔ یعنی 35 فی صد رقم زیادہ ہوگئی ہے جس کی وجہ سے روپے کی صورت میں ترسیلاتِ زر میں اضافہ نطر آئے گا۔
ان کے بقول ان دونوں وجوہات کی بنا پر پاکستانی اپنے ملک میں کم پیسے بھجوا رہے ہیں۔
دوسری جانب ایکسچینج کمپنیر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکریٹری ظفر پراچہ اس کی کچھ اور وجوہات بیان کرتے ہیں۔
ظفر پراچہ کہتے ہیں کہ بہت سے پاکستانی اپنی ترسیلات حوالہ، ہنڈی کے غیر قانونی راستوں کے ذریعےبھیج رہے ہیں کیوں کہ وہاں انہیں ان کی کرنسی کی اچھی شرح مل جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انٹر بینک سے رقم بھجوانے والے اگر منی ٹرانسفر کمپنیز کے ذریعے ٹرانزایکشن کرتے ہیں تو انہیں 12 سے 15 روپے کم ملتے ہیں جب کہ وہاں کنورژن ریٹ بھی کم ہے۔دوسری جانب حوالے میں آج کے انٹربینک ریٹ سے 25 روپے سے زائد تک مل جاتے ہیں۔ ایسے میں کون انٹربینک کےذریعے پیسے بھجوائے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اگر مناسب چینل کے ذریعے رقم بھیجنا یا وصول کرنا ہے تو دستاویزات کے سخت عمل سے بھی گزرنا پڑتا ہے جس سے بچنے کے لیے لوگ غیر قانونی راستوں کی جانب مائل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت خود درآمد کنندگان سے یہ کہہ چکی ہے کہ وہ اپنے لیے ڈالرز کا خود ہی انتظام کریں،ایسے میں حوالے سے ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھ چکی ہے۔
ظفر پراچہ نے بتایا کہ حالیہ مہینوں میں گرے مارکیٹ بھی تیزی سے پروان چڑھی ہے کیوں کہ حکومت نے انٹربینک میں ایکسچینج ریٹ پر سخت لیکن پوشیدہ کنٹرول رکھا ہوا تھا۔
رواں مالی سال ترسیلاتِ زر گرشتہ سال سے کم ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق اس سال ترسیلاتِ زر میں تقریباً 13 فی صد کی کمی دیکھی جا رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے جاری اپنے ایک بیان میں مرکزی بینک نے بتایا کہ اپریل کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کی مد میں دو اعشاریہ دو ارب ڈالر بھیجے گئے جو ماہانہ بنیادوں پر گزشتہ ماہ سے تقریباً 12 اعشاریہ نو فی صد کم ہے۔
اس کے علاوہ رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے 22 اعشاریہ سات ارب ڈالرز بینکنگ چینل کے ذریعے پاکستان بھیجے جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 13 فی صد کم ہے۔
گزشتہ سال کے دس ماہ میں ترسیلاتِ زر 26 ارب 10 کروڑ ڈالر زسے زائد رہی تھیں۔
ایک ایسے وقت میں جب ملکی خزانے میں صرف چار ارب 38 کروڑ ڈالرز کے ذخائر موجود ہیں اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں دو ماہ میں تین ارب 70 کروڑ ڈالر ادا کرنے ہیں تو بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ترسیلاتِ زر میں کمی سے پاکستان کو ان ادائیگیوں کو یقینی بنانے اور تجارتی خسارہ پورا کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ترسیلات زر بڑھانے کے لیے بیرونِ ملک پاکستانیوں اور خود ایکسچینج کمپنیوں کو انڈسٹری کا درجہ دینا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے ترسیلات زر چند برسوں میں دگنی ہوسکتی ہیں۔
ان کے بقول منی ٹرانسفر کمپنیز سے بھیجی گئی رقم کو بھی بینکوں کے ساتھ ایکسچینج کمپنیز سے بھی رقم وصول کی جاسکتی ہو تو اس سے کافی فرق پڑ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ درآمدکنندگان کو ڈالر کا انتظام حوالے سے کرنے بجائے ایکسچینج کمپنیوں سے کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں غیرملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر سے متعلق پالیسی میں بھی بڑی تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے۔