واشنگٹن —
وینزویلا کے صدر ہیوگو شاویز چوتھی بار وینزویلا کے صدر منتخب ہوگئے ہیں اور اگر وہ اپنی چھ سالہ نئی مدتِ صدارت پوری کرنے میں کامیاب رہے تو وہ تیل کی دولت سے مالامال جنوبی امریکہ کے اس ملک پر لگاتار 20 برس حکومت کرنے والے رہنما بن جائیں گے۔
گزشتہ ہفتے ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے شاویز کی انتخابی مہم اس بار ماضی کے اپنے روایتی جوش و جذبے سے محروم رہی۔ اس کی بنیادی وجہ شاویز کی علالت ہے جو گزشتہ کئی ماہ سے کینسر جیسے موذی مرض سے نبرد آزما ہیں۔
گوکہ سرکاری طور پر ان کے کینسر کے متعلق زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں لیکن باور کیاجاتا ہے کہ اس بیماری اور اس کے طویل علاج کے باعث وہ کمزور اور مضمحل ہوگئے ہیں۔
مغربی تجزیہ کار یہ سوال کرتے رہے ہیں کہ آیا 58 سالہ شاویز کی صحت انہیں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والے اس لاطینی امریکی ملک پر کامیابی سے حکومت کرنے، اس کے کمزور انفراسٹرکچر کو ترقی دینے اور جرائم کے بڑھتے ہوئے رجحان کو قابو میں لانے کی اجازت دے گی یا نہیں۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شاویز 1999ء میں اقتدار میں آئے تھے اور اس کے بعد سے وہ وینزویلا کی بیشتر معیشت قومیا چکے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایسا کرکے اپنے ملک کی غریب اکثریت کا طرزِ زندگی بدلنا چاہتے ہیں۔
لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر شاویز کی اس حکمتِ عملی کے نتیجے میں سرمایہ کار خوفزدہ ہیں۔ لیکن ناقدین کچھ بھی کہیں، وینزویلا کے غریب ووٹروں کی اکثریت کے لیے شاویز کا سوشلسٹ نظریہ گزشتہ کئی دہائیوں کی ان حکومتوں کے بعد مثبت تبدیلی کا ایک جھونکا بن کر آیا ہے جنہوں نے عوام کی ضروریات اور مشکلات کو مدِ نظر نہیں رکھا۔
صدر شاویز نے تیل کی برآمد سے حاصل ہونے والے اربوں ڈالرز بڑی کامیابی سے اندرونِ ملک جاری 'غربت مٹائو' منصوبوں میں لگائے ہیں اور اپنے عوامی انداز اور مختلف تنازعات و مسائل پر مقبول موقف اختیار کرکے عوام کے دلوں میں گھر کرلیا ہے۔
اتوار کو صدارتی انتخاب میں ان کی کامیابی کے اعلان کے بعد کیوبا سے بولیویا تک وسطی امریکہ کے پورے خطے میں پھیلے ان کے بائیں بازو کے ان اتحادی حکمرانوں نے سکون کا سانس لیا ہوگا جن پر شاویز وینزویلا کا تیل اور اس سے حاصل ہونے والی دولت بے دریغ لٹاتے رہے ہیں۔
امریکہ مخالف موقف اپنا کر اور امریکہ کے دشمن ممالک، بشمول بیلاروس، ایران اور شام کو تیل کی فروخت میں اضافہ کرکے شاویز نہ صرف جنوبی امریکہ بلکہ خطے سے باہر بھی اپنا ایک وسیع حلقہ حامیان پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
لیکن تجزیہ کاروں کے مابین اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ اتوار کو ہونے والے انتخابات میں شاویز کو گزشتہ 14 برسوں سے جاری اپنے اقتدار کے دوران میں سب سے سخت مقابلہ درپیش تھا۔
وینزویلا میں ایک کروڑ 90 لاکھ رجسٹرڈ ووٹر ہیں جن میں سے انتخابی حکام کے مطابق اتوار کے صدارتی انتخاب میں 81 فی صد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔
اس انتخاب میں ان کے حریف ہینرک کیپریلس نے شاویز کے ماضی کے کسی بھی انتخابی حریف سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے یہ بتادیا ہے کہ عوام میں ان کی مقبولیت بہرحال کسی حد تک کم ضرور ہوئی ہے۔
گزشتہ ہفتے ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے شاویز کی انتخابی مہم اس بار ماضی کے اپنے روایتی جوش و جذبے سے محروم رہی۔ اس کی بنیادی وجہ شاویز کی علالت ہے جو گزشتہ کئی ماہ سے کینسر جیسے موذی مرض سے نبرد آزما ہیں۔
گوکہ سرکاری طور پر ان کے کینسر کے متعلق زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں لیکن باور کیاجاتا ہے کہ اس بیماری اور اس کے طویل علاج کے باعث وہ کمزور اور مضمحل ہوگئے ہیں۔
مغربی تجزیہ کار یہ سوال کرتے رہے ہیں کہ آیا 58 سالہ شاویز کی صحت انہیں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والے اس لاطینی امریکی ملک پر کامیابی سے حکومت کرنے، اس کے کمزور انفراسٹرکچر کو ترقی دینے اور جرائم کے بڑھتے ہوئے رجحان کو قابو میں لانے کی اجازت دے گی یا نہیں۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شاویز 1999ء میں اقتدار میں آئے تھے اور اس کے بعد سے وہ وینزویلا کی بیشتر معیشت قومیا چکے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایسا کرکے اپنے ملک کی غریب اکثریت کا طرزِ زندگی بدلنا چاہتے ہیں۔
لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر شاویز کی اس حکمتِ عملی کے نتیجے میں سرمایہ کار خوفزدہ ہیں۔ لیکن ناقدین کچھ بھی کہیں، وینزویلا کے غریب ووٹروں کی اکثریت کے لیے شاویز کا سوشلسٹ نظریہ گزشتہ کئی دہائیوں کی ان حکومتوں کے بعد مثبت تبدیلی کا ایک جھونکا بن کر آیا ہے جنہوں نے عوام کی ضروریات اور مشکلات کو مدِ نظر نہیں رکھا۔
صدر شاویز نے تیل کی برآمد سے حاصل ہونے والے اربوں ڈالرز بڑی کامیابی سے اندرونِ ملک جاری 'غربت مٹائو' منصوبوں میں لگائے ہیں اور اپنے عوامی انداز اور مختلف تنازعات و مسائل پر مقبول موقف اختیار کرکے عوام کے دلوں میں گھر کرلیا ہے۔
اتوار کو صدارتی انتخاب میں ان کی کامیابی کے اعلان کے بعد کیوبا سے بولیویا تک وسطی امریکہ کے پورے خطے میں پھیلے ان کے بائیں بازو کے ان اتحادی حکمرانوں نے سکون کا سانس لیا ہوگا جن پر شاویز وینزویلا کا تیل اور اس سے حاصل ہونے والی دولت بے دریغ لٹاتے رہے ہیں۔
امریکہ مخالف موقف اپنا کر اور امریکہ کے دشمن ممالک، بشمول بیلاروس، ایران اور شام کو تیل کی فروخت میں اضافہ کرکے شاویز نہ صرف جنوبی امریکہ بلکہ خطے سے باہر بھی اپنا ایک وسیع حلقہ حامیان پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
لیکن تجزیہ کاروں کے مابین اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ اتوار کو ہونے والے انتخابات میں شاویز کو گزشتہ 14 برسوں سے جاری اپنے اقتدار کے دوران میں سب سے سخت مقابلہ درپیش تھا۔
وینزویلا میں ایک کروڑ 90 لاکھ رجسٹرڈ ووٹر ہیں جن میں سے انتخابی حکام کے مطابق اتوار کے صدارتی انتخاب میں 81 فی صد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔
اس انتخاب میں ان کے حریف ہینرک کیپریلس نے شاویز کے ماضی کے کسی بھی انتخابی حریف سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے یہ بتادیا ہے کہ عوام میں ان کی مقبولیت بہرحال کسی حد تک کم ضرور ہوئی ہے۔