پاکستان کی سپریم کورٹ نے صوبے خیبرپختونخوا میں ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس 2019 کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت پر ریمارکس دیے کہ اس آرڈیننس کو برقرار رکھنے کی ٹھوس وجہ سامنے نہ آئی تو گڑ بڑ ہو جائے گی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر ان علاقوں میں فوج کی موجودگی برقرار رکھنا مقصود ہے تو فوج تو اس آرڈیننس سے قبل بھی ان علاقوں میں موجود تھی۔
اس صدارتی آرڈیننس کو پشاور ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا، جس پر وفاقی اور خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔
کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔
سماعت کے دوران، اٹارنی جنرل انور منصورخان نے دلائل دیے کہ فوج کے زیرِ انتظام حراستی مراکز کے قواعد فاٹا اور پاٹا میں صوبائی حکومت نے بنائے۔ خیال رہے کہ فاٹا وفاق کے زیرِ انتظام علاقے جب کہ پاٹا صوبوں کے زیرِ انتظام علاقوں کو کہا جاتا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ قواعد میں تو زیرِ حراست افراد سے اہل خانہ کی ملاقات کا بھی ذکر ہے۔ پھر آپ نے زیرِ حراست افراد کی فہرست سربمہر لفافے میں کیوں دی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ زیر حراست افراد کے اہل خانہ کو تفصیلات بتائی جاتی ہیں، لیکن انہیں منع کیا جاتا ہے کہ اس معلومات کو آگے شیئر نہ کریں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ زیر حراست افراد 15 روز بعد اپنے اہل خانہ کو ایک خط لکھ سکتے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ لوگ میڈیا میں شکایت کیوں کرتے ہیں کہ انہیں ان کے پیاروں کا علم نہیں ہوتا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میڈیا میں آنے والی تمام شکایات غلط نہیں۔ بعض لاپتا افراد کا اداروں کو بھی علم نہیں ہوتا۔
سماعت کے دوران غیر ریاستی عناصر کے لفظ پر بھی بات ہوئی اور جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ نائن الیون کے بعد غیر ریاستی عناصر کا لفظ سامنے آیا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا غیر ریاستی عناصر کو بنیادی حقوق حاصل نہیں ہوتے۔
کیا اداروں کے پاس زیر حراست افراد کے غیر ریاستی عناصر ہونے کے شواہد ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اداروں کے پاس تمام تفصیلات اور شواہد موجود ہیں، عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کروں گا کہ حراستی مراکز غیر آئینی نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے سوال حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا ہے۔ ہم نے یہ جائزہ نہیں لینا ہے کہ حراستی مراکز درست کام کر رہے ہیں یا نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہو سکتا ہے یہ حراستی مراکز نظریہ ضرورت کے تحت بنائے گئے ہوں۔ آئینی ترامیم کے بعد حالات بہت بہتر ہو گئے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوج پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے والوں کے خلاف اب بھی لڑ رہی ہے۔ آئینی ترمیم کے بعد قوانین برقرار رکھنے کا ایکٹ نافذ کیا گیا۔ قانون سازی کے ذریعے فاٹا اور پاٹا میں پہلے سے رائج قوانین کو جاری رکھا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ کیا آپ آئینی ترمیم کو چیلنج کر رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے بھی پوچھا کہ کیا آپ تسلیم کر رہے ہیں حراستی مراکز غیر آئینی ہیں؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب قبائلی علاقے خیبر پختونخوا میں ضم ہو چکے ہیں۔ ان علاقوں کی ساری مشینری بھی صوبے کے زیرِ انتظام آ چکی ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پاٹا پہلے بھی صوبے کا حصہ تھا صرف انتظامی کنٹرول گورنر کے پاس ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر پہلے سے قوانین موجود تھے تو پھر نئے آرڈنینس کی کیا ضرورت تھی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 2019 کے آرڈیننس کے مطابق فوج قانون کے مطابق آپریشن کرے گی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا فوج اس سے پہلے قانون کے خلاف آپریشن کر رہی تھی؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوج کے اقدامات پہلے سے رائج قانون کے مطابق تھے۔
جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ آرڈیننس میں لکھا ہے شدت پسند ملک کے وفادار نہیں رہے، کیا شر پسند پہلے وفادار تھے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے قوانین میں بھی یہی الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔
کیس کی مزید سماعت آئندہ بدھ تک ملتوی کر دی گئی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 25 اکتوبر کو خیبرپختونخوا ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) آرڈیننس 2019 کو غیر قانونی قرار دینے سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے معاملے پر لارجر بینج تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔
پشاور ہائی کورٹ نے اپنے 17 اکتوبر کے فیصلے میں سابق قبائلی علاقوں (فاٹا اور پاٹا) کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد وہاں حراستی مراکز فعال ہونے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے صوبے کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس کو تین روز کے اندر ان حراستی مراکز کا انتظام سنبھالنے کی ہدایت کی تھی۔