پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ نے بچوں کے اغوا، زیادتی اور قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تدارک کے لیے 'زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری بِل 2019' کی منظوری دے دی ہے۔
قانون کا مقصد بچوں کے خلاف مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے خصوصی قوانین کا نفاذ کرنا اور اغوا یا گم شدہ بچوں کو بازیاب کرانا ہے۔
اس قانون کے دیگر مقاصد میں بچوں کے تحفظ کے لیے قائم کیے گئے نئے اداروں کے کام اور پہلے سے رائج طریقہ کار میں ہم آہنگی پیدا کرنا بھی شامل ہے۔
یاد رہے کہ اس قانون کا نام کمسن زینب انصاری کے نام پر رکھا گیا ہے جسے اغوا اور ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ زینب سے جنسی زیادتی اور قتل کے واقعے کے خلاف ملک بھر میں احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔
اس قانون کی منظوری سے بچوں کے خلاف جرائم پر 10 سال سے عمر قید تک کی سزا دی جا سکے گی جب کہ 10 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔
مذکورہ بل وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے پیش کیا تھا جس کی قومی اسمبلی پہلے ہی متفقہ منظوری دے چکی ہے۔
اس بل کا اطلاق صرف وفاقی دارالحکومت کی حدود میں ہونا تھا تاہم سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کی منظوری کے بعد اس کا دائرہ کار پورے ملک تک وسیع کر دیا گیا ہے۔
'بل بچوں کے خلاف جرائم کی مزاحمت کا کام کرے گا'
زینب الرٹ بل کے لیے قائم قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی کی کنوینئر مہرین رزاق بھٹو کہتی ہیں کہ قوانین کی موجود نہ ہونے کے باعث بچے عدم تحفظ کا شکار تھے اور ان کے خلاف جرائم میں اضافہ دیکھا جا رہا تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مہرین رزاق بھٹو نے کہا کہ اس قانون کے ذریعے نہ صرف سزاؤں کا تعین کیا گیا ہے بلکہ بچوں کے مقدمات سننے کے لیے خصوصی عدالتوں کی تشکیل بھی کی گئی ہے جو کہ تین ماہ کے مقررہ وقت میں فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی۔
بچوں کے تحفظ کے ادارے ساحل کے نمائندے ممتاز گوہر کہتے ہیں کہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے یہ بل دیر آید درست آید کی مانند ہے اور بچوں کے خلاف جرائم کے حوالے سے یہ بل مزاحمت کا کام کرے گا بشرط یہ کہ اس بل پر روح کے مطابق عمل درآمد کیا جائے۔
'دیکھنا ہوگا قانون پر کس حد تک عمل ہو پاتا ہے'
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ اس قانون پر کس حد تک عمل درآمد ہو پاتا ہے جس کا اندازہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے قومی کمیشن اور ان کے مقدمات سننے کے لیے خصوصی عدالتوں کی تشکیل سے لگایا جاسکے گا جو تین ماہ میں تشکیل پانی ہیں۔
مہرین رزاق بھٹو کہتی ہیں کہ تمام صوبے اور شراکت دار زینب الرٹ بل کے حوالے سے ہم آہنگ ہیں اور وہ بہت حد تک مطمئن ہیں کہ اس قانون پر موثر عمل درآمد ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کو بچوں کے تحفظ کی ذمہ داری لینا ہوگی۔
زینب الرٹ بل کیا ہے؟
لاپتہ بچوں کی رپورٹ کے لیے ہیلپ لائن قائم کی گئی ہے جس کا نمبر 1099 ہے اس کے علاوہ ایس ایم ایس اور ایم ایم ایس سروس بھی شروع کی جائے گی۔
قانون کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچوں کا اغوا، قتل، زیادتی، ورغلانے اور گمشدگی کی ہنگامی اطلاع کے لیے زینب الرٹ ریکوری اینڈ رسپانس ایجنسی بھی قائم کی جائے گی۔
زینب الرٹ بل میں پولیس کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ کسی بچے کی گمشدگی یا اغوا کے واقعے کی رپورٹ کے دو گھنٹوں کے اندر اس کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔
بل میں کہا گیا کہ اگر افسر بچے کے خلاف جرائم پر دو گھنٹے میں ردعمل نہیں دے گا تو اس کا یہ اقدام قابل سزا جرم تصور ہوگا۔
اس قانون کے مطابق پولیس بچوں کے خلاف جرائم سے متعلق کسی بھی واقع کی ایجنسی کو اطلاع دے گی اور اگر ایجنسی کو بچے کے لاپتہ ہونے کی خبر ملے گی تو وہ متعلقہ پولیس اسٹیشن کو فوری آگاہ کرے گی۔
زینب الرٹ بل میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی بھی بچے کے اغوا یا اس کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعہ کا مقدمہ درج ہونے کے تین ماہ کے اندر اندر اس کی سماعت مکمل کرنا ہوگی اور ضلع کا سیشن جج خصوصی طور پر کیس مجسٹریٹ یا جج کے حوالے کرے گا۔
ریپ اور قتل کا نشانہ بننے والی قصور کی کمسن زینب انصاری کی لاش کے ملنے کے ٹھیک دو سال بعد رواں برس 10 جنوری کو قومی اسمبلی نے زینب الرٹ ریکوری اینڈ رسپانس ایکٹ 2019 متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔
یاد رہے کہ 2018 میں پنجاب کے شہر قصور کی چھ سالہ زینب انصاری کے اغوا اور جنسی زیادتی کے بعد قتل پر اس قانون کی تیاری شروع کی گئی تھی۔
زینب سے جنسی زیادتی اور قتل کے واقعے کے خلاف ملک بھر میں احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر (جسٹس فار زینب) کے نام سے ہیش ٹیگ کئی روز تک ٹرینڈ کرتا رہا جس کے ذریعے عوام بچوں پر ہونے والے تشدد کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتی رہی۔
زینب سے جنسی زیادتی اور قتل کے الزام میں عمران علی کو گرفتار کیا گیا اور انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مجرم کو چار بار سزائے موت، ایک بار عمر قید اور سات برس قید کی سزا سنائی۔