پاکستان کے ایوانِ زیریں (قومی اسمبلی) نے بچوں سے جنسی زیادتی کے ملزمان کو سرِ عام پھانسی دینے سے متعلق حکومت کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی ہے۔ تاہم، حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اس قرارداد کی مخالفت کی ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیرِ مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان بچوں سے زیادتی کرنے والوں کے لیے سزائے موت چاہتے ہیں۔
انہوں نے ایوان کو بتایا کہ انسانی حقوق کی کمیٹی میں بچوں سے زیادتی کے ملزمان کو سزائے موت کا مطالبہ آیا تو مخالفت کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سزائے موت کا قانون بنانا چاہتی ہے۔ اپوزیشن بتائے وہ بچوں سے زیادتی کے ملزمان کو سزائے موت کے بل کی حمایت کرنے کو تیار ہے؟
اس موقع پر سابق وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ زیادتی کے ملزم کو سرِ عام پھانسی دینا ممکن نہیں ہے، کیونکہ پاکستان پر اقوام متحدہ کے قانون لاگو ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی معاشرہ سرِ عام پھانسی کو قبول نہیں کرے گا۔ اگر حکومت اس میں مزید اضافہ چاہتی ہے تو سزا سخت کر دے۔ زیادتی کے مجرم کو قید کی اتنی سزا دیں کہ وہ مجرم جیل میں ہی مر جائے۔
اس سے قبل قومی اسمبلی میں زینب الرٹ بل بھی متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا جس کے تحت بچوں کے خلاف جرائم پر 10 سے 14 سال سزا دی جا سکے گی۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس 14 دسمبر کو حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اقلیتی رکن اسمبلی جیمز اقبال نے کم عمر بچوں سے جنسی زیادتی پر سر عام پھانسی دینے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔
بل میں کہا گیا تھا کہ اگر زیادتی کرنے والے مجرم کی عمر 21 سال سے زائد ہو تو 100 افراد کے سامنے پھانسی پر لٹکایا جائے۔
جیمز اقبال کا یہ بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا تھا۔ مجوزہ بل میں کہا گیا ہے کہ سات سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے مجرم کی عمر 21 سال سے زائد ہو تو کم ازکم 100 افراد کے سامنے پھانسی اور اس کے ساتھ 25 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جائے۔
دس سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے لیے عمر قید یا کم از کم 10 سال کی قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ 14 سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو عمر قید یا کم از کم 7 سال قید اور دو لاکھ جرمانے کی سزا دی جائے۔
بل کے متن کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو عمر قید، کم از کم پانچ سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ۔ معذور افراد کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو 14 سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
وفاقی وزرا کی مخالفت
بچوں سے زیادتی کے ملزم کو سرِ عام سزائے موت سے متعلق قرارداد اگرچہ حکمراں جماعت تحریک انصاف کے رکن نے ایوان میں پیش کی۔ تاہم، بعض وفاقی وزرا نے اس کی شدید مخالفت کی ہے۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ اس قرارداد کا پاکستان تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ انفرادی طور پر پیش کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ان کی وزارت اس کی مخالفت کرتی ہے۔ بدقسمتی سے ایک اجلاس کی وجہ سے آج قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت نہ کر سکی۔
وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بھی اپنے ایک ٹوئٹ میں اپنی ہی جماعت کی جانب سے پیش کردہ قرارداد کی مذمت کی ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ سرِ عام پھانسی کے حوالے سے قرارداد کی بھرپور مذمت کرتا ہوں۔ اس طرح کے قوانین تشدد پسندانہ معاشروں میں بنتے ہیں۔ بربریت سے آپ جرائم کے خلاف نہیں لڑ سکتے۔ ایسی قانون سازی انتہا پسندانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔
پیپلز پارٹی کی مخالفت
پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں سرِ عام سزائے موت دینے کے حوالے سے قرارداد کی مخالفت کی ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں نے اس پر بات نہیں کی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے قواعد کے مطابق سزائے موت کے خلاف ہیں۔ لہذا، وہ اس بل کی حمایت نہیں کریں گے۔
راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ایسے کسی قانون کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جائے گا، لیکن اس کے متبادل کے طور پر سزاؤں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری اس سے قبل زینب الرٹ بل میں بھی سزائے موت کے خلاف تھے اور اس کا برملا اظہار کرچکے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دورِ صدارت میں سزائے موت دیے جانے پر غیر اعلانیہ پابندی تھی اور ہزاروں مجرمان کو سزا ملنے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ تاہم، 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد پاکستان میں اس سزا پر دوبارہ عمل درآمد شروع کر دیا گیا تھا۔
بچوں سے زیادتی کے واقعات
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وقفہ سوالات کے دوران وزارتِ داخلہ نے تحریری جواب میں بتایا کہ 2018 میں اسلام آباد میں بچوں سے زیادتی کے 66 اور 2019 میں 60 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔
اسی طرح 2018 میں 80 ملزمان اور 2019 میں 75 ملزمان گرفتار ہوئے جن میں سے ایک ملزم کو سزا ہوئی باقی کا ٹرائل ہو رہا ہے۔
اس سے قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تحفظ اطفال میں گزشتہ دو برسوں کے دوران بچوں سے زیادتی کی تفصیلات بتائی گئی تھیں، جن کے مطابق 2018 میں زیادتی کے ایک ہزار 387 جب کہ 2019 میں 4000 کیسز رپورٹ ہوئے۔ ان میں دو ہزار 403 کا تعلق پنجاب سے ہے۔
رپورٹ کے مطابق، بچوں سے زیادتی کرنے والے لوگ زیادہ تر بچوں کے جاننے والے ہی ہوتے ہیں، جن میں پڑوسی اور دکان دار بھی شامل ہیں۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'ساحل' کے ڈیٹا کے مطابق، حکومتی اعداد و شمار بہت کم ہیں۔ 'ساحل' کے مطابق، 2018 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 3832 کیسز سامنے آئے، جن میں 55 فی صد لڑکیاں اور 45 فی صد لڑکے شامل ہیں۔
ساحل کے مطابق، بچوں کے اغوا کے 923 کیسز، جنسی زیادتی کے 589، جبری زیادتی کے 537، مسنگ چلڈرن کے 452، زیادتی کی کوشش کے 345، گینگ کی صورت میں زیادتی کے 282 اور چائلڈ میرج کے 99 کیس سامنے آئے تھے۔