رسائی کے لنکس

بنگلہ دیش: کم عمرلڑکیوں کی شادی کا مسئلہ


بنگلہ دیش: کم عمرلڑکیوں کی شادی کا مسئلہ
بنگلہ دیش: کم عمرلڑکیوں کی شادی کا مسئلہ

بنگلہ دیش!! جنوبی ایشیاء کی ایسی سرزمیں جہاں غربت نے کوسوں دور تک اور سالوں سے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ یہاں غربت ایک دو نہیں بہت سارے مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ ان مسائل میں کم عمر ی کی شادی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ حکومتوں اور غیر سرکاری اداروں کے انگنت اقدامات کے باوجود اس مسئلے پر اب تک قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ آج بھی سینکڑوں والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کم عمری میں ہی کردیتے ہیں۔

خبر رساں ادارے ارن کے مطابق ملک کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف بنگلہ دیش کے پروجیکٹ منیجر غیاث الدین کا کہنا ہے : کم عمری کی شادیاں بنگلہ دیش کا ایک گھمبیر مسئلہ ہے ۔ اگر اب بھی اس مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو زچہ و بچہ کی اموات کو رکنا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔

انٹی گریٹیڈ ریجنل انفارمیشن نیٹ ورکس کے مطابق ملک میں بالغ العمری سے قبل شادی نہ کرنے والی لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے اسکالر شپس دی جاتی ہیں ۔ یہ اسکیم 1994ء سے جاری ہے ۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کی جانب سے نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی ممکن بنائی جاتی ہے ۔ اس کے تحت ملک کے 64 اضلاع میں سے 25 اضلاع کے نوجوانوں کو روزگار کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔

یونیسیف کی جانب سے سے سال2011ء کے لئے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی بیس سے چوبیس سال کی ایک تہائی لڑکیوں کی شادیاں پندرہ سال کی عمر میں کردی جاتی ہیں۔ 2009ء میں دو فیصد لڑکیوں نے 18 ویں سالگرہ سے قبل ہی شادی کی سالگرہ منائی۔

والدین کے نزدیک کم عمری کی شادی کی وجوہات میں جہیز کی کم ادائیگی اور لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراساں ہونے سے بچانا ہے۔ والدین ان مسائل سے بچنے کا واحد حل یہی سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں کی کم عمری میں ہی شادی کردی جائے تاکہ لڑکیوں کی ذمے داریوں سے بچ سکیں۔وہ غربت کے سبب لڑکیوں کو بہتر مستقل نہیں دے سکتے اس لئے لڑکیوں کی ذمے داری اٹھانے کے بجائے ان کی کم عمری میں شادی کردینا اپنے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ کم عمرہونے کی صورت میں انہیں جہیز بھی کم دینا پڑتا ہے۔

نیشنل چائلڈ میریج ریسٹرین ایکٹ 1929ء کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی شادی غیر قانونی ہے لیکن قانون پر مناسب انداز میں عمل درآمد نہ ہوسکنے کی وجہ سے کم عمری کی شادیوں کا رواج دن بہ دن زور پکڑتا جارہا ہے۔ پولیس اور حکام کی کوششوں سے بہت ساری شادیوں کو عین موقع پر روکا بھی جاچکا ہے مگر اکثر و بیشتر غیرقانونی شادیاں ہو جاتی ہیں ۔

کم عمری میں شادی سے لڑکیوں کو بیماریاں گھیر لیتی ہیں ۔ اکثر اوقات لڑکیوں کی صحت اس قابل ہی نہیں رہتی کہ وہ اپنے ہونے والے بچوں کو جنم دے سکیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ زچہ اور بچہ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ایسے کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

ان اموات پر درست انداز میں عمل اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب والدین کوان شادیوں سے ہونے والے نقصان سے مکمل طور پر آگاہ کیا جائے۔ کیوں کہ لڑکی کی جلدی شادی کا مطلب جلدی ماں بننا ہے اور کم عمر ی کا حمل کئی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ جن لڑکیوں کی شادی کم عمر میں کردی جاتی ہے وہ اکثر ماں بننے کے دوران ہی ہلاک ہوجاتی ہیں۔

وزارت امور خواتین و بچے کے سیکریٹری طارق الاسلام کے مطابق حکومت نے کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے لئے متعدد مہمات شروع کی ہوئی ہیں جن کے ذریعے بڑے پیمانے پر عوام میں آگاہی پیدا کی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں حکومت اس سلسلے میں مناسب قانون سازی اور پہلے سے موجود قانون کو صحیح انداز میں نافذ کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے لیکن صورتحال پر قابو پانے میں ابھی وقت لگ سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG