امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے بچوں کو فوجی کے طور پر استعمال کرنے والے ملکوں کی فہرست سے میانمر اور عراق کا نام نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے محکمے کے ماہرین اور سینییر عہدے داروں کی سفارشات کو نظر انداز کر دیا۔
خبررساں ادارے روئیٹرز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس خبر کی تصدیق تین امریکی عہدے داروں نے کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے محکمہ خارجہ کے ان ضابطوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جن کے تحت خلاف ورزی کرنے والے ملکوں کی نشاندی کی جاتی ہے۔
ٹلرسن نے ان دونوں ملکوں میں بچوں کے فوجی کے طور پر استعمال سے متعلق اپنے سٹاف کی تجزیے کے خلاف فیصلہ کیا اور ایشیا اور مشرق وسطی کے اپنے سینیر سفارت کاروں کی سفارشات کو مسترد کر دیا جنہوں نے میانمر اور عراق کو اس فہرست میں رکھنے کی تجویز دی تھی۔
وزیر خارجہ ٹلر سن نے محکمہ خارجہ کی جانب سے یہ تجویز بھی مسترد کر دی کہ افغانستان کانام بھی ان ملکوں کی فہرست میں شامل کیا جائے جو بچوں کو فوجیوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
روئیٹرز کے مطابق ایک عہدے دار نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ بظاہر یہ فیصلہ پینٹاکان کے دباؤ کی وجہ سے کیا ہے جو عراق اور افغانستان میں فوج کے ساتھ معاونت کے پروگرام میں پیچیدگیوں سے بچنا چاہتے ہیں۔
اس فہرست میں شامل ملکوں کی فورسز امریکی فوجی امداد ، تربیت اور امریکی ہتھیارحاصل نہیں کر سکتے تاوقتتکہ کہ وہائٹ ہاؤس استثنی جاری نہ کرے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے عہدے داروں نے اس فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا ہے جس کا اعلان منگل کے روز متوقع ہے۔
پینٹاگان نے فوری طورپر اس بارے میں اپنا ردعمل نہیں دیا۔
سن 2008 کے بچوں کے فوجی کے طور پر استعمال روکنے کے قانون کے تحت فوجی معاونت، مدد اور ہتھیار حاصل کرنے کے لیے حکومت کو لازماً یہ اطمینان دلانا ہوتا ہے کہ کسی بھی بچے کو فوج میں بھرتی نہیں کیا جا رہا یا انہیں فوجی کے طور پر خدمات انجام دینے کے لیے مجبور نہیں کیا جا رہا۔
عراق جسے سن 2016 میں اس فہرست میں شامل کیا گیاتھا، پچھلے تین سال سے امریکہ سے دو ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے ہتھیار اور تربیت حاصل کر چکا ہے۔
پچھلے سال محکمہ خارجہ نے کہاتھا کہ عراق کی کچھ ملیشیائیں ، جن میں زیادہ تر شیعہ گروپ ہیں اور جنہیں عراقی اور ایرانی حکومت کی حمایت حاصل ہے، بچوں کو فوجی کے طورپر بھرتی اور فوجی کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں۔