امریکہ میں ہر تین میں سے ایک بچہ وزن کی زیادتی کاشکارہے۔ یہ وہ اعدادوشمار ہیں جن کا حوالہ امریکی خاتون اول مشیل اوباما نےاس وقت دیا جب انہوں نے ’آئیے آگے بڑھیں‘ نامی ایک نئی مہم کا اعلان کیا۔ ملک گیر سطح کی اس مہم کا مقصد بچوں کوورزش اور بہتر غذائیت کے بارے میں آگہی فراہم کرکے امریکی بچوں میں فربہی کے مسئلے پر قابو پانا ہے۔
امریکی خاتون اول کی اس مہم کے اہم پہلو ورزش اور غذائیت ہیں۔
امریکی سرجن جنرل کا کہناہے کہ امریکہ میں ہر تین میں سے ایک بچہ وزن کی زیادتی میں مبتلا ہے۔ جس کے نتیجے میں امریکی بچے اپنے قدکاٹھ اورحجم کے اعتبار سے تمام ترقی یافتہ ملکوں کے بچوں کے مقابلے میں بڑے ہیں۔ اور گذشتہ 30 برس میں امریکی بچوں میں فربہی کی شرح تین گنا ہوچکی ہے۔ خاتون اول ، اس فرق کو دور کرنا چاہتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی اپنے بچوں کے لیے اور اپنے ملک لیے ایسا مستقبل دیکھنا نہیں چاہتا۔ وہ بچوں کی بہتر جسمانی صحت اور سکولوں کے کیفے ٹیریاز میں زیادہ صحت بخش خوراک کی مہم چلارہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لاکھوں امریکی بچوں کو حاصل ہونے والے زیادہ تر حرارے اس خوراک سے ملتے ہیں جو وہ اسکولوں میں کھاتے ہیں۔ انتظامیہ نے سکولوں کے لیے غذائیت کے معیار متعین کرنے کی غرض سے اگلے دس سال میں مزید دس ارب ڈالر مختص کرنے کی تجویز دی ہے۔
مشیل اوباما کہتی ہیں کہ ہم ایسی صورت حال نہیں چاہتے کہ والدین تو اپنے گھروں میں تمام درست اقدامات کریں ، لیکن ان کے بچےجب اسکول جائیں تووہاں کیفے ٹیریا میں نمکین اور زیادہ روغنی چیزیں کھا کر ان کی محنت ضائع کردیں۔
خاتون اول کا کہنا ہے کہ موٹاپے سے منسلک بیماریوں کے علاج میں ہر سال تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ ماہرین اطفال کا کہناہے کہ اگر بچوں میں شروع ہی میں صحت مند عادات ڈال دی جائیں تو فربہ بچے اپنے بچپن میں ہی دبلے ہوجائیں گے اور وہ موٹاپے میں مبتلا بالغ کے طورپر پروان نہیں چڑھیں گے۔
ڈاکٹر جوڈیتھ پال فری کاکہنا ہے کہ وزن کی زیادتی ہمارے بچوں میں سانس کے مسائل پید اکرسکتی ہے۔ اگر کوئی بچہ اپنی ٹین ایج میں ذیابیطس میں مبتلا ہوجاتا ہے تو 30 سال کی تک کی عمر کو پہنچ کر اسے گردے کی تبدیلی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو روزانہ ایک گھنٹے کی بھرپور ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن امریکی بچوں کے لیے، جودن میں ساڑھے سات گھنٹے ٹی وی دیکھنے یا الیکٹرانک کے دوسرے تفریحی آلات کے ساتھ گذارتے ہیں، یہ ایک مشکل کام ہے۔
صدر اوباما نے بچوں میں موٹاپے کے سد باب کے لیے ایک اولین ٹاسک نامزد کی ہے۔ وہ تین ماہ کے اندر اپنی میز پر ایک منصوبہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
خاتون اول کا کہنا ہے کہ ان کی مہم کامقصد بچوں کی زندگی سے ان کے پسندیدہ کھانے نکالنا نہیں بلکہ برگر اور تلے ہوئے کھانوں اور سبزیوں کے درمیان ایک توازن قائم کرنا ہے۔