دنیا بھر میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر معاشرے میں بچے کی زبان سے ادا ہونے والے پہلے بامعنی الفاظ عموماً ’ماما‘‘ اور ’’دادا‘‘ ہوتے ہیں۔ یہ لفظ سن کر یقنناً والدین بہت خوش ہوتے ہیں کیونکہ دنیا کی اکثر زبانوں میں ماں اور باپ کے لیے استعمال کیے جانے والے الفاظ ، ان دو لفظوں کے قریب تر ہوتے ہیں، مثلاً ممی، ڈیڈی، اماں، بابا، پاپا،دادا وغیرہ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اکثرننھے بچوں کا زیادہ وقت اپنے ماں باپ کے ساتھ گذرتا ہے، کیونکہ اپنے والدین سے الگ پروش پانے والے بچوں کے بھی پہلے الفاظ یہی ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے یہ وہ سادہ ترین الفاظ ہیں، جسے بچے کے دماغ کا وہ حصہ ، جس کا تعلق زبان سیکھنے سے ہے، آسانی سے قبول کرلیتا ہے۔
اپنی عمر کے ابتدائی مہینوں میں اگرچہ بچہ بول نہیں سکتا لیکن اس میں دوسروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی صلاحیت پہلے دن سے ہی موجود ہوتی ہے جس کے لیے وہ رونے یا چیخنے سے کام لیتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ بچہ کسی تکلیف کے باعث ہی رو رہا ہوں کیونکہ اپنی عمر کے پہلے ایک دو مہینوں میں وہ سوائے رونے کی کوئی اور آواز نہیں نکال سکتا اور اپنی کسی بھی ضرورت کا اظہار وہ صرف رو کر ہی کرسکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر بچے ایک سے دو ماہ کی عمر کے دوران غوں غاں کی آوازیں نکالناشروع کردیتے ہیں۔ یہ آوازیں وہ اکثر اوقات اپنی خوشی کے اظہار کے لیے نکالتے ہیں۔
تقریباً چھ ماہ کی عمر میں بچے ’’ما، دا، غا، با‘‘ جیسے حرف بولنے لگتے ہیں، لیکن ان کا بچے کے نزدیک کوئی مقصد یا مطلب نہیں ہوتا بلکہ یہ دماغ کے اس حصے کے فعال ہونے کی سمت اشارہ ہوتاہے جس کا تعلق زبان سیکھنے سے ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بچے سات ماہ کی عمر کو پہنچتے ہیں تو وہ کان میں پڑنے والی آوازوں اور لفظوں کو سمجھنے اور سیکھنے کی کوشش شروع کردیتے ہیں اور اپنے چہرے کے تاثرات اور اپنی حرکات و سکنات سے اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے لگتے ہیں۔
اگر کوئی بچہ ایسا نہیں کررہا تو اس کی ایک وجہ سماعت کی خرابی ہوسکتی ہے اور اس سلسلے میں ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے سات ماہ کی عمر میں بچہ کئی الفاظ سمجھ سکتا ہے لیکن بالعموم ایک سال کی عمرتک پہنچنے سے قبل وہ کوئی بامعنی لفظ بول نہیں سکتا۔
تقریباً آٹھ سے بارہ ماہ کی عمر کے دوران بچہ اپنی حرکات و سکنات سے اپنے جذبات کا اظہار شروع کردیتا ہے۔ مثلاً کسی چیز پر نظریں جمانا، یا اس کی جانب اپنا ہاتھ بڑھانا، یا ہاتھ ہلانا، یا مسکرانا یا چہرے پر ناگواری یا ناراضگی کے تاثرات لانا وغیرہ۔
اکثر ماہرین کا اس پر اتفاق ہے کہ بچے 10 سے 15 ماہ کی عمر کے دوران بولنا شروع کردیتے ہیں اور پہلے ابتدائی الفاظ مثلاً ’’ماما، دادا ، بابا ‘‘ وغیرہ 13 ماہ کی عمر میں اس کی زبان سے ادا ہونے لگتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کی زبان سے ادا ہونے والے یہ پہلے دو تین لفظ بارش کے ان قطروں کی مانند ہیں جن کے بعد موسلادھار مینہ برسنے لگتا ہے اور پھر دماغ کا وہ حصہ جس کا زبان سیکھنے سے تعلق ہے، تیزی سے کام کرنے لگتا ہے۔ 18 ماہ کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بچہ لگ بھگ 50 الفاظ سمجھنے اور بولنے لگتا ہے اور دوسال کی عمر تک اس کا ذخیرہ الفاظ 200 لفظوں تک پہنچ جاتا ہے۔
ڈیڑھ سے دو سال کی عمر کے درمیان ہی بچہ دو لفظوں کو ملا کر جملے بولنے کی کوشش شروع کردیتا ہے، مثلا’’وہ بابا، پاپا آیا، بلی گئی ‘‘ وغیرہ۔
بچوں کی زبان سے ادا ہونے والے پہلے الفاظ آخر ’’ماما، بابا، دادا ‘‘ ہی کیوں ہوتے ہیں، یہ جاننے کے لیے یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا میں ایک تحقیق کی گئی۔ ڈاکٹر جودت گروین کی زیر قیادت ماہرین کی ایک ٹیم نے 22 نوزائیدہ بچوں کے دماغوں کا سیکن کیا۔تمام بچے دو سے تین دن کی عمروں کے تھے۔ سکینگ کے دوران بچوں کو چند الفاظ کی ریکارڈنگ سنوائی گئی۔ ماہرین کو پتا چلا کہ ما، با، نا، اور دا جیسے الفاظ سے بچوں کے دماغ کے زبان سے متعلق حصوں میں ارتعاش پیدا ہوا جب کہ دوسرے لفظوں کی آواز پر وہاں کسی قسم کی کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تجربے سے یہ معلوم ہوا کہ یہ وہ الفاظ ہیں جو فطری طورپر بچے کے دماغ کے قریب تر ہیں اور اپنی پیدائش کے چند گھنٹوں کے بعد ہی اس کا دماغ ان صوتی آوازوں پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے لگتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ بولنے کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کی زبان سے ادا ہونے والے پہلے الفاظ یہی ہوتے ہیں، چاہیے اس کے والدین کوئی بھی زبان بولتے ہوں اور وہ دنیا کے چاہے جس حصے میں ہی کیوں نہ رہتے ہوں۔