قدیم رومیوں کی آبادکاری کے قیام سے آج تک لندن بہت سی تحریکوں اور عالمگیر واقعات کا مظہر رہا ہے جس میں صنعتی انقلاب بھی شامل ہے۔
بیسویں صدی میں دنیا بھر سے لوگ اپنا ملک چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں نئے بننے والے صنعتی علاقوں مانچسٹر اور برمنگھم اور لندن میں منتقل ہونے لگے جس کی وجہ سے انسانی تاریخ نے ایک نیا موڑ لیا اور لندن بہت سے قسم کے لوگوں، مذاہب اور ثقافتوں کا گہوارہ بن گیا۔
دو عالمی جنگوں کی شکست و ریخت کے بعد 1960 کی دہائی سے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں سے برطانیہ آنے والے تارک وطن خاندانوں نے ایک بالکل نئے ماحول اور مختلف تہذیب وثقافت رکھنے والے انگلش ملک میں انتہائی مصائب کے دن دیکھے۔
انھیں یہاں مساویانہ حقوق حاصل کرنے میں طویل جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن آج انہی میں سے ایک پاکستانی محنت کش کے بیٹے نے برطانیہ میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔
پاکستانی نژاد برطانوی سیاست دان صادق خان نے یہ اعزاز حاصل کیا ہے کہ وہ لندن کے پہلے ایشیائی، پہلے غیر سفید فام اور اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والا پہلے میئر بن گئے ہیں۔
سیاحوں کا سب سے بڑے مرکز اور برطانیہ کے داراحکومت لندن کے میئر کے انتخاب میں اصل مقابلہ ایک پاکستانی بس ڈرائیور کے بیٹے صادق خان اور ارب پتی زیک گولڈ اسمتھ کے درمیان تھا جبکہ لیبر کے امیدوار صادق خان کئی لحاظ سے حزب اقتدار پارٹی کے امیدوار کے برعکس تھے لیکن لندن کے لوگوں نے ایک بس ڈرائیور کے بیٹے پر اعتماد کیا اور صادق خان لندن کے میئر کے عہدے پر فائز ہوگئے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کونسل کے ایک چھوٹے سے گھر سے زندگی کا سفر شروع کرنے والے صادق خان کی لندن کے میئر بننے تک کی حیرت انگیز داستان نے تارک وطن خاندانوں کے بچوں کے لیے امیدوں اور خواہشات کے دروازے کھول دیئے ہیں۔
تین سو سے زائد زبانیں بولنے والوں کے شہر لندن کے پہلے مسلمان میئر صادق خان کو برطانیہ میں ایک 'بااثر مسلم شخصیت‘ کی حیثیت حاصل ہوئی ہے جن کے پاس داراحکومت پر خرچ کرنے کے لیے 17 بلین پاونڈز کا بجٹ ہے۔
صادق خان نے ایک سرکاری اسکول سے تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے انسانی حقوق کے وکیل بننے اور 2005 میں لیبر پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے ٹوٹنگ سے انتخاب لڑا ۔وہ میئر بننے سے پہلے وزیر ٹرانسپورٹ اور حزب اختلاف کی پارلیمان میں شیڈو وزیر انصاف رہے ہیں۔
لندن کا میئر منتخب ہونے پر انھیں حریف جماعت ٹوری کی طرف سے بھی مبارکباد کے پیغامات موصول ہوئے ہیں جن میں ان کو بتایا گیا ہے کہ ان کی فتح کا لمحہ تارکین وطن خاندانوں کے لیے کتنا اہم تھا۔
برطانوی سیاسی دھارے میں نمایاں مقام رکھنے والے وزیر برائے کاروبای امور ساجد جاوید کے والد بھی ایک پاکستانی بس ڈرائیور تھے۔
ٹوری جماعت سے تعلق رکھنے والے ایم پی ساجد جاوید کی طرف سے نومنتخب لندن میئر کو ٹوئٹر پر ایک پیغام بھیجا گیا ہےجس میں وہ اسی حوالے سے لکھتے ہیں کہ '' ایک بس ڈرائیور کے بیٹے کی طرف سے دوسرے بس ڈرائیور کے بیٹے کو مبارکباد۔''
ساجد جاوید کے والد عبدل جب انگلینڈ آئے تو ان کی جیب میں صرف ایک پونڈ کی رقم تھی انھوں نے دن رات محنت کی جس پر انھیں مسٹر ڈے اینڈ نائٹ کا خطاب ملا۔ صادق خان کی طرح وہ ایک کونسل کے گھر میں پیدا ہوئے اور انھوں نے سرکاری اسکول سے تعلیم حاصل کی ہے۔
سابق بینکر ساجد جاوید نے سیاست دان بننے کے بعد وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی قدامت پسند جماعت میں تیزی سے مقبولیت حاصل کی ہے جس کی وجہ سے انھیں کنزرویٹیو پارٹی میں ابھرتا ہوا ستارہ سمجھا جاتا ہے اور مستقبل میں پارٹی کے رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ساجد جاوید سیکرٹری ثقافت کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔
قدامت پسند جماعت کی پاکستانی نژاد سیاست دان سعیدہ وارثی کو برطانوی کابینہ کی پہلی مسلمان خاتون وزیر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
سعیدہ وارثی نے اپنے مبارکباد کے پیغام میں ساجد جاوید کی ٹویٹ کی کاپی کے ساتھ لکھا ہے کہ ''اس پاکستانی بس ڈرائیور کی بیٹی کی طرف سے بس ڈرائیور کے بیٹے صادق خان کو مبارک باد''
برطانوی ہاوس آف لارڈ کی رکن سعیدہ وارثی پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں ان کے والدین کا تعلق پاکستان کے ضلع گوجر خان سے ہے۔ ان کے والد پاکستان سے ہجرت کرکے یارک شائر کے ایک قصبے ڈیوزبری میں آباد ہوئے تھے۔
سعیدہ وارثی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ کنزرویٹیو پارٹی کی سربراہ رہی ہیں۔ اس سے قبل وہ لیبر جماعت کے دور حکومت میں کنزرویٹیو پارٹی کی شیڈو کابینہ کی رکن رہی ہیں۔ انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ2007 میں ہاوس آف لارڈز کی سب سے کم عمر رکن تھیں۔