چین میں سات نومولود بچے چوری کر کے انسانی اسمگلروں کے ہاتھ فروخت کرنے کا اعتراف کرنے والی ڈاکٹر کو ممکنہ طور پر موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق شان ژی صوبے کے ایک اسپتال میں زچگی کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر زانگ شوژیا نے عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کیا۔
55 سالہ ڈاکٹر پر الزام تھا کہ وہ بچوں کی حالت تشویشناک اور موروثی بیماری میں مبتلا ہونے کی جھوٹی خبر دے کر والدین کو ان سے دستبردار ہونے کے لیے بھی دباؤ ڈالتی تھی۔
چوری کیے گئے بچوں میں سے چھ کو بازیاب کروا لیا گیا لیکن 165 امریکی ڈالر میں فروخت کیا جانے والا ایک بچہ جانبر نہ ہو سکا۔
سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ’گلوبل ٹائمز‘ کے مطابق زانگ نے متاثرہ خاندانوں سے یہ کہہ کر معافی مانگی کہ وہ بچوں کو فروخت کرنے کے جرم میں اس غلط فہمی کی وجہ سے شریک ہوئی کہ وہ ’’ضرورت مند خاندانوں کی مدد کر رہی تھی۔‘‘
چین میں بچوں کی فروخت ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے اور مبصرین کے بقول یہ ’’ایک بچہ پالیسی‘‘ جیسے سخت حکومتی قانون کے وجہ انسانی اسمگلروں کے کاروبار کے پھیلاؤ کا ایک بڑا سبب ہے۔
چین کی حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بعض اقدامات کیے ہیں جن میں بچوں کو گود لینے سے متعلق سخت قواعد و ضوابط اور بچوں کے فروخت کے خلاف کارروائی بھی شامل ہے۔ بیجنگ ’’ایک بچہ پالیسی‘‘ میں بھی بتدریج نرمی کر رہا ہے۔
گلوبل ٹائمز کا کہنا ہے کہ چین میں بچوں کے اغوا میں ملوث افراد کو عموماً عمر قید کی سزا ہوتی ہے لیکن چین کے قانونی ماہرین کے مطابق بعض سنگین مقدمات میں سزائے موت بھی سنائی جا سکتی ہے۔
زانگ کے خلاف پیر کو شروع ہونے والے مقدمے میں تاحال کوئی فیصلہ نہیں سنایا گیا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق شان ژی صوبے کے ایک اسپتال میں زچگی کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر زانگ شوژیا نے عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کیا۔
55 سالہ ڈاکٹر پر الزام تھا کہ وہ بچوں کی حالت تشویشناک اور موروثی بیماری میں مبتلا ہونے کی جھوٹی خبر دے کر والدین کو ان سے دستبردار ہونے کے لیے بھی دباؤ ڈالتی تھی۔
چوری کیے گئے بچوں میں سے چھ کو بازیاب کروا لیا گیا لیکن 165 امریکی ڈالر میں فروخت کیا جانے والا ایک بچہ جانبر نہ ہو سکا۔
سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ’گلوبل ٹائمز‘ کے مطابق زانگ نے متاثرہ خاندانوں سے یہ کہہ کر معافی مانگی کہ وہ بچوں کو فروخت کرنے کے جرم میں اس غلط فہمی کی وجہ سے شریک ہوئی کہ وہ ’’ضرورت مند خاندانوں کی مدد کر رہی تھی۔‘‘
چین میں بچوں کی فروخت ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے اور مبصرین کے بقول یہ ’’ایک بچہ پالیسی‘‘ جیسے سخت حکومتی قانون کے وجہ انسانی اسمگلروں کے کاروبار کے پھیلاؤ کا ایک بڑا سبب ہے۔
چین کی حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بعض اقدامات کیے ہیں جن میں بچوں کو گود لینے سے متعلق سخت قواعد و ضوابط اور بچوں کے فروخت کے خلاف کارروائی بھی شامل ہے۔ بیجنگ ’’ایک بچہ پالیسی‘‘ میں بھی بتدریج نرمی کر رہا ہے۔
گلوبل ٹائمز کا کہنا ہے کہ چین میں بچوں کے اغوا میں ملوث افراد کو عموماً عمر قید کی سزا ہوتی ہے لیکن چین کے قانونی ماہرین کے مطابق بعض سنگین مقدمات میں سزائے موت بھی سنائی جا سکتی ہے۔
زانگ کے خلاف پیر کو شروع ہونے والے مقدمے میں تاحال کوئی فیصلہ نہیں سنایا گیا۔