چین اور بھارت کے درمیان دو برس سے سرحدی حدود کے ایک تنازع کے حل کے بعد دونوں بڑی طاقتوں کے تعلقات میں جاری کشیدگی میں کمی آئی ہے۔ لیکن بھارت میں اس پیش رفت کو ناقدین حکومت کی پسپائی قرار دے رہے ہیں۔
بھارت کے مقامی گلہ بانوں کو شکایت ہے کہ اس سمجھوتے کے نتیجے میں وہ کئی چراگاہوں سے محروم ہوگئے ہیں جب کہ تجزیہ کار انتباہ کررہے ہیں کہ کسی بھی وقت سرحدوں پر دوبارہ کشیدگی کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔
چین اور بھارت کے درمیان مشرقی لداخ کے گوگرا۔ہوٹ اسپرنگز کے علاقے پر رواں برس ستمبر میں ایک معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے کے بعد سرحد پر دونوں ممالک کے درمیان جاری کئی تنازعات میں سے ایک تنازع حل ہوگیا تھا جس پر دونوں ممالک گزشتہ کچھ عرصے سے آمنے سامنے تھے۔
چین سے ہونے والے معاہدے پر بھارت میں اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی وزیرِ اعظم نے بغیر لڑائی کے ایک ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ چین کے حوالے کردیا ہے۔ کیا بھارتی حکومت یہ وضاحت کرے گی کہ یہ علاقہ کس طرح بازیاب کیا جائے گا؟
انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ چین نے اپریل 2020 کی صورتِ حال بحال کرنے کا بھارت کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔
انٹیلی جینس امور کے تجزیہ کار ڈیمن سائمن کی جانب سے شیئر کردہ سیٹیلائٹ تصایر کے مطابق مذکورہ علاقے سے چین کے انخلا کی تصدیق ہوگئی ہے۔
ڈیمن سائمن کے مطابق سیٹیلائٹ تصاویر سے تصدیق ہوتی ہے کہ سرحد پر چین کے کیمپ تھے جو اب ہٹا دیے گئے ہیں۔ البتہ چین کے علاقے میں اس جگہ اب بھی فوج تعینات ہے۔
بھارت میں دفاعی امور کے ماہر اور سابق فوجی افسر پروین سوہنے کا کہنا ہے کہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی ان علاقوں سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے جن پر اس نے دو برس قبل قبضہ کیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ستمبر میں ہونے والے معاہدے کے بعد دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے نہیں ہیں اور جو بفرزون بنایا گیا ہے وہ بھارت کی حدود میں چھ کلومیٹر اندر تک ہے۔
پروین سوہنے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمالیائی خطے کے جن اہم علاقوں کا بھارت دعوے دار ہے وہاں چین کی فوج موجود ہے۔ اس میں سیاچن گلیشیئر سے ملحقہ دیپسانگ پلینز کا علاقہ بھی شامل ہے جو کہ بھارت، پاکستان اور چین کی سرحدوں پر عسکری اعتبار سے انتہائی حساس علاقہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان یا چین کے ساتھ جنگ کی صورت میں دیسپانگ کا علاقہ رسد کی فراہمی کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔
'خانہ بدوش خطرے میں ہیں'
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں لداخ سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن سجاد کارگلی کا کہنا ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کمی خوش آئندہے البتہ مقامی گلہ بان اپنی چراگاہیں چھن جانے پر برہم ہیں کیوں کہ اب یہ علاقے بفر زون میں شامل کردیے گئے ہیں۔
اس علاقے میں سرحد سے قریب قائم ایک مقامی کونسل کے نمائندہ کونچوک استانزن کہتے ہیں "ہماری کئی روایتی چرا گاہیں چھن گئی ہیں اور اب خانہ بدوشوں کو اپنے جانور چرانے کے لیے 15 کلومیٹر تک کا سفر کرنا پڑتا ہے۔"
استانزن اور اس علاقے کے دیگر افراد کا کہنا ہے کہ چراگاہوں کا علاقہ کم ہونے سے پشمینے کا کاروبار متاثر ہوگا۔ جانوروں کے بالوں سے تیار ہونے والے اون کا یہ کاروبار گزشتہ 600 برسوں سے جاری ہے اور کم و بیش ڈھائی لاکھ افراد کے روزگار کا ذریعہ ہے۔
چین کی حکمتِ عملی
امریکہ کے تھنک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ سے بھارت اور جنوبی ایشیا کے امور سے متعلق بطور محقق وابستہ اپرنا پانڈے کا کہنا ہے کہ گوگرا۔ ہوٹ اسپرنگز کا علاقہ چین کی زمین پر بتدریج قبضے کی حکمتِ عملی کا حصہ تھا۔ اس حکمت عملی کو'سلامی سلائسنگ' کہا جاتا ہے جس کے تحت چین کسی علاقے پر بتدریج قبضہ کرتا ہے اور پھر حریف کو اسے زمینی حقیقت کے طور پر تسلیم کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 2012 سے 2020 کے دوران چین کی فوج نے سرحدی علاقوں میں بھارت کے کئی علاقوں پر قبضہ کیا ہے۔ ہر بار بھارت کو قدم پیچھے ہٹانے پڑے ہیں اور اس نے اپنی فوج ان علاقوں سے ہٹائی ہے جب کہ چین نے ایسا نہیں کیا۔
اپرنا پانڈے کے مطابق اس بار بھارت نے محاذ آرائی تو ختم کی ہے لیکن اضافی اہلکار اسی وقت واپس بلائے گا جب چین بھی ایسا کرے گا۔
واشنگٹن میں قائم ریسرچ گروپ ولسن سینٹر کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ چین اب بھی 'دی کواڈ' گروپ میں شمولیت سمیت دیگر کئی اسباب سے بھارت پر برہم ہے۔
دی کواڈ سیکیورٹی تعاون کے لیے بنایا گیا گروپ ہے جس میں امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت شامل ہیں۔
ایک انٹرویو میں ان کا کہنا ہے کہ چین 'کواڈ' کو اپنے خلاف رکاوٹ بننے والے فوجی اتحاد کے طور پر دیکھتا ہے۔
مائیکل کوگلمین کے مطابق چین جب بھی چاہے بھارت کو اشتعال دلا سکتا ہے لیکن بھارت کے پاس ایسے کسی اقدام کو روکنے کی صلاحیت نہیں ۔ ان کے بقول، مشرقی لداخ میں ہونے والے حالیہ ڈس انگیجمنٹ کے باوجود بھارتی علاقوں میں چینی اہل کار موجود ہیں۔
تجارتی تعلقات اثر انداز ہوں گے؟
واشنگٹن میں قائم سٹمسن سینٹر کے مشرقی ایشیا پروگرام کی شریک ڈائریکٹر ین سن کے خیال میں چین اور بھارت دونوں ملک یہ نہیں چاہیں گے کہ 2020 جیسا تنازع دوبارہ پیدا ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ فریقین طویل عرصے سے اپنی اپنی پوزیشن پر رکے ہوئے ہیں اور اسے مضبوط کررہے ہیں۔
ین سن کے مطابق 'کواڈ' میں بھارت کی شمولیت چین کے لیے بے چینی کا باعث تو ہے تاہم جب تک اس کے عملی اثرات سامنے نہیں آتے چین اس معاملے پر بھارت پر دباؤ نہیں بڑھائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات پٹری سے نہیں اترے ہیں اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کی توقع کی جاسکتی ہے۔
کوگلمین بھی اس تجزیے سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کا معاشی مفاد بھی چین سے تجارت جاری رکھنے ہی میں ہے اور آئندہ بھی اس میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔