رسائی کے لنکس

چین اور جاپان کے تعلقات میں تلخیوں کی آخر وجہ کیا ہے؟


چین اور جاپان کے تعلقات معمول پر آئے ہوئے اگرچہ 50 برس مکمل ہوچکے ہیں لیکن دونوں ملکوں کے تعلق کی نوعیت اس قدر پیچیدہ ہے کہ آج بھی اس سوال کا جواب واضح نہیں ہو سکا کہ یہ دوست ہیں یا دشمن؟ یا دوستی اور دشمنی کا تعلق ساتھ ساتھ نبھا رہے ہیں۔

پچاس سال قبل 29 ستمبر 1972 کو جاپان اور چین نے سفارتی تعلقات بحال کرنے کے لیے ایک مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے تھے۔ اس کے بعد امریکہ کے صدر رچرڈ نکسن نے بھی چین کا دورہ کیا تھا۔ تعلقات کی بحالی کی نصف صدی مکمل ہونے کے بعد بھی چین کے سرکاری میڈیا اور نصابی کتابوں میں دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان کے 'سفاکانہ حملے' کو آج بھی فراموش نہیں کیا گیا ہے۔

اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان اس عرصے میں ثقافتی رشتے بڑھے ہیں۔ جاپان میں چینی کھانوں کے کئی ریستوران کھل چکے ہیں اور تعلقات کی بحالی کے 50 برس مکمل ہونے پر دونوں ممالک میں ثقافتی میلوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔لیکن ماہرین کے مطابق سیاسی تعلقات کی تلخ تاریخ دونوں ملکوں کے عوام کے ذہنوں میں نقش ہے۔

خاص طور پر جاپان میں لوگ چین کی بڑھتی ہوئی فوجی قوت کو ناپسندیدگی سے دیکھتے ہیں۔ گزشتہ برس ایک جاپانی تھنک ٹینک جینرون این پی او کے ایک سروے کے مطابق 90 فی صد جاپانی شہری چین کے بارے میں منفی تاثر رکھتے ہیں۔ 66 فی صد چینی باشندے بھی جاپان کے بارے میں یہی جذبات رکھتے ہیں جب کہ گزشتہ برس یہ شرح 53 فی صد تھی۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بحال ہونے کے بعد کئی برسوں سے ہر سال ایکسچینج فیسٹولز کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ اس میں ایک ملک کے تاجر، سیاح ، طلبہ وغیرہ دوسرے ملک کے دورے کرتے ہیں۔ چین میں کئی علاقوں میں جاپانی طرز کے کمرشل علاقے قائم ہوئے اور جاپان میں بھی چینی مصنوعات اور کھانوں کی مقبولیت بڑھی ہے۔

دونوں ممالک میں اس دن کو منانے کے تقاریب کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔
دونوں ممالک میں اس دن کو منانے کے تقاریب کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔

گزشتہ دو برس میں کرونا کی وجہ سے یہ سلسلہ معطل ہوگیا تھا جو اس سال دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات تاریخ اور دورِ حاضر میں عالمی سیاست کے بدلتے منظر نامے کے اثرات سے پوری طرح نکل نہیں سکے ہیں۔

اختلافات کیا ہیں؟

انیسویں صدی میں جاپان تیزی سے بڑھتی ہوئی ایک نوآبادیاتی قوت بن چکا تھا۔ 1895 کے بعد سے جاپان نے چین پر کئی حملے کیے اور ان جنگوں میں چین کے کئی علاقے اس کے قبضے میں بھی رہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کچھ سرحدی تنازعات بھی اسی دور کی یاد گار ہیں۔

چین اور جاپان کے درمیان مشرقی بحیرہ چین میں پائے جانے والے دو جزیروں پر سرحدی تنازع پایا جاتا ہے۔ چین میں سینکاکو اور جاپان دائیو کہلانے والے یہ جزائر جاپان کے زیرِ انتظام ہیں۔ جب کہ چین ان پر ملکیت کا دعوے دار ہے۔ جاپان کا اصرار ہے کہ اس نے ایک صدی قبل وہاں فوڈ کی فیکٹریاں قائم تھی اور تاریخی اور بین الاقوامی قانون کی رو سے یہ جزائر جاپان کا حصہ ہیں۔

اس کے مقابلے میں چین کا کہنا ہے کہ جاپان نے 1895 میں چین کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد ان جزائر پر یہ فیکٹریاں بنائی تھیں لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد اسے یہ علاقے واپس مل جانے چاہیے تھے۔

متنازع جزائر کے نواح میں ماہی گیری کے لیے زرخیز علاقے اور تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ جاپان کا الزام کے ہے ان جزائر سے ملحقہ علاقوں کے سمندری ذخائر سے متعلق اقوامِ متحدہ کی 1969 کی رپورٹ کے بعد ہی چین نے ان پر ملکیت کا دعویٰ کرنا شروع کیا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان 1972 میں سفارتی تعلقات معمول پر لانے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں جزائر پر تنازع کے زیرِ بحث نہیں لایا گیا تھا۔ تاہم 2012 میں جب جاپان نے سینکاکو جزیرے کو قومیانے کا اعلان کیا تھا تو چین میں بڑے پیمانے پر اس کے خلاف احتجاج ہوا تھا۔

دونوں ممالک کے تعلقات کی بحالی کے اعلامیے پر جاپان کے وزیر اعظم کاکوئی تاناکا اور ان کے چینی ہم منصب ژو این لائی نے دستخط کیے تھے۔
دونوں ممالک کے تعلقات کی بحالی کے اعلامیے پر جاپان کے وزیر اعظم کاکوئی تاناکا اور ان کے چینی ہم منصب ژو این لائی نے دستخط کیے تھے۔

جنگ کے سائے

بیسویں صدی میں آکر بھی ان ممالک کے درمیان جنگی تنازعات کا سلسلہ جاری رہا۔ 1930 کی دہائی سے ایک دوسرے کے آمنے سامنے رہے ہیں اور 1945 میں جاپان کی شکست کے بعد یہ جنگ ختم ہوئی۔ دوسری عالمی جنگ سے قبل جاپان نے چین کے علاقے نانجن میں شہریوں کا قتلِ عام کیا تھا اور مبینہ طور پر وہاں کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری کے لیے تجربات میں چینی شہریوں کو استعمال کیا تھا۔

جاپان نے اپنی فیکٹریوں اور کانوں میں مزدوری کے لیے 40 ہزار چینی شہروں کو قیدی بنا کر رکھا جن میں سے متعدد افراد غذائی قلت اور ناروا سلوک کی وجہ سے ہلاک بھی ہوئے۔

سن 1972 میں چین نے جاپان کی جانب سے معافی اور چین کی حکومت کو تسلیم کرنے کے عوض جنگ کے بعد زرِ تلافی معاف کردیا تھا۔ گزشتہ چار دہائیوں میں جاپان چین کو ترقیاتی امداد کی مد میں 25 ارب ڈالر دے چکا ہے۔

متنازع جنگی یادگار

جاپان میں جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے 25 لاکھ افراد کی یاد میں بنائی گئی یاسوکونی یادگار کو چین متنازع قرار دیتا ہے۔ جن لوگوں کے لیے یہ یادگار بنائی گئی ہے ان میں جنگی جرائم کے مرتکب افرادبھی شامل ہیں۔

چین اس یادگار کو جاپان کی توسیع پسندی اور عسکریت کی علامت قرار دیتا ہے۔

چین یاسوکوئی یادگارکو جاپان کی توسیع پسندی کی علامت قرار دیتا ہے۔
چین یاسوکوئی یادگارکو جاپان کی توسیع پسندی کی علامت قرار دیتا ہے۔

تائیوان سے متعلق چین کے خدشات

جاپان امریکہ کا اتحادی اور جنوبی بحیرۂ چین میں چین کی بڑھتی ہوئے سرگرمیوں کا ناقد ہے۔ جاپان آبنائے تائیوان میں قیامِ امن کا حامی ہے۔ چین تائیوان کے خودمختار خطے پر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے اور ضرورت پڑنے پر بزور اس کے الحاق کی دھمکی بھی دیتا آیا ہے۔چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ اور اس علاقے کے بحری محاذ پر دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی جاپان کے لیے بھی شدید تشویش کا باعث ہے۔

معاشی اسباب

جاپان امریکہ کے بڑے اتحادیوں میں شمار ہوتا ہے تاہم چین کے ساتھ اس کی تجارت کا ححم بہت زیادہ ہے۔ اس لیے جاپان کو ان دونوں بڑی قوتوں کے درمیان تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کا چیلنج درپیش رہتا ہے۔

چین خطے کے ممالک کو پنے شروع کیے گئے منصوبوں اور تجارتی تنظیموں کا حصہ بننے کے لیے زور دیتا ہے۔ اس میں ریجنل کوآپریشن اکنامنک پارٹنر شپ نامی ایک تجارتی گروپ بھی شامل ہے۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ جاپان بھی خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اثر و رسوخ کو محدود کرنا چاہتا ہے۔

( اس تحریر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں)

XS
SM
MD
LG