مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ عمران خان کسی انقلاب کے لیے نہیں بلکہ اپنی مرضی کے آرمی چیف کے لیے لانگ مارچ کر رہے ہیں۔
بدھ کو اپنی ٹوئٹ میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان کا انقلاب چار سال میں عوام دیکھ چکی ہے۔ دوسروں کو چور کہنے والا فارن فنڈنگ اور توشہ خان کیس میں سب سے بڑا چور ثابت ہوا۔
عمران خان کا لانگ مارچ روکنے کی درخواست اب مؤثر ہو چکی ہے: چیف جسٹس
چیف جسٹس آف پاکستان نے سربراہ پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان کا لانگ مارچ روکنے کے لیے دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ اب یہ درخواست مؤثر ہو گئی ہے، کیوں کہ وہ اب دوبارہ اسلام آباد آ رہے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بدھ کو کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ کسی سے احتجاج کا حق چھیننانہیں چاہتے، لیکن احتجاج قانون کے دائرے کے اندر ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ عدالت ایگزیکٹو نہیں ہے اور نہ ہی بننا چاہتی ہے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس یحیی آفریدی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بہتر ہو گا کہ آپ درخواست واپس لے لیں، ورنہ اس کے قانونی اثرات مرتب ہوں گے اور اپنے لیے پیچیدگیاں کیوں بنا رہے ہیں۔
عدالت نے لانگ مارچ فوری روکنے کی وفاقی حکومت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر 31 اکتوبر سے پہلے کوئی مسئلہ ہوا تو عدالت یہاں موجود ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی دراخواست پرسماعت ہوئی جس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن حکومت کی طرف سے پیش ہوئے اور کہا کہ پولیس اور حساس اداوں کی رپورٹس کا جائزہ لیا ہے ،پولیس آئی ایس آئی اور آئی بی رپورٹس پر ہی سب اداروں کا انحصار ہے۔
عامر رحمان نے کہا کہ عدالت کا پہلا سوال تھا کہ عمران خان نے ڈی چوک آنے کی کال کب دی تھی، اس کا جواب یہ ہے کہ عدالتی حکم 25 مئی کو شام 6 بجے آیا تھا۔عمران خان نے 6 بج کر 50 منٹ پر ڈی چوک کا اعلان کیا جب کہ عمران خان نے دوسرا اعلان 9 بج کر 54 منٹ پر کیا،پی ٹی آئی نے سرینگر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست دی تھی، لیکن عمران خان نے عدالتی حکم سے پہلے بھی ڈی چوک جانے کا اعلان کیا تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ عمران خان مختص جگہ سے گزر کر بلیو ایریا آئے اور ریلی ختم کی۔ مختص مقام ایچ نائن سے چار کلومیٹر آگئے آکر عمران خان نے ریلی ختم کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں یقین دہانی عمران خان کی جانب سے وکلا نے دی تھی۔عمران خان کے بیان سے لگتا ہے انہیں عدالتی حکم سے آگاہ کیا گیا۔اسلام آباد کی طرف آتے ہوئے عمران خان نے کہا سپریم کورٹ نے رکاوٹیں ہٹانے کا کہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کو کیا بتایا گیا اصل سوال یہ ہے۔عمران خان آکر عدالت کو واضح کردیں کس نے کیا کہا تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بابر اعوان فیصل چوہدری نے عمران خان کی طرف سے یقین دہانی کروائی تھی۔عدالت کو یقین دہانی کرائی گی تھی سڑکیں بلاک ہوں گی نہ مختص مقام سے آگے جائیں گیے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتی درخواست پر عمران خان کو نوٹس جاری کریں گے،بابر اعوان اور فیصل چوہدری کو بھی نوٹس جاری کریں گے،آپ کی بات میں وزن ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نوٹس میں یقین دہانی کا ذکر ہے لیکن تحریری طور پر کہاں ہے؟عامر رحمن نے کہا کہ عدالت نے فیصل چودھری اور بابر اعوان کو عمران خان سے ہدایات لینے کا کہا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مناسب ہو گا حکومتی الزامات پر یقین دہانی کرانے والوں سے جواب مانگ لیں۔تحریری مواد نہ ہوتو کسی کو بلانے کا فائدہ نہیں۔رپورٹس میں اتنا جواز موجود ہے کہ عمران خان سے جواب مانگا جائے۔اگر نوٹس بھی کریں تو عمران خان کا پیش ہونا ضرور ی نہیں۔ہم سرخیاں نہیں بنوانا چاہتے، قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔سول نوعیت کی توہین عدالت میں شوکاز پر ہی پیش ہونا پڑتا ہے۔
عدالت نے عمران خان کو لانگ مارچ سے متعلق مزید وضاحت کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے 31 اکتوبر تک جواب طلب کر لیا۔
خیال رہے کہ عمران خان نے منگل کو لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ جمعے کو لاہور سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ شروع کریں گے۔
لانگ مارچ چار نومبر کو اسلام آباد پہنچے گا: اسد عمر
تحریکِ انصاف کے رہنما اسد عمر نے کہا ہے کہ عمران خان کا لانگ مارچ چار نومبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں داخل ہو گا۔
ایک ٹوئٹ میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ 29 اکتوبر کو لاہور سے روانہ ہو کر مریدکے، کامونگی، گوجرانوالہ، ڈسکہ، سیالکوٹ، سمبڑیال، وزیرِ آباد، گجرات، لالہ موسیٰ، کھاریاِں، جہلم، گوجر خان اور راولپنڈی سے ہوتا ہوا چار نومبر کو اسلام آباد پہنچے گا۔ جہاں سارے ملک سے آنے والے قافلے اس میں شامل ہوں گے۔