بیجنگ —
جب چینی لیڈر ژی جنپنگ جنوب کے شہر شینزہن کے دورے پر گئے، تو چینی میڈیا کی توجہ صرف ان کے بیانات پر نہیں بلکہ ان واضح ہدایات پر بھی تھی کہ ان کے استقبال کے لیے سرخ قالین نہ بچھائے جائیں اور نہ پُر تکلف دعوتوں کا بندوبست کیا جائے۔
ژی جنپنگ کے اس رویے سے چین کے نئے لیڈروں کی اس کوشش کی عکاسی ہوتی ہے کہ عوام میں بے اطمینانی پھیلنے کی ایک اہم وجہ ، یعنی سرکاری حلقوں میں کرپشن کا قلع قمع کیا جائے۔
برسوں سے، چینی لیڈر اس خطرے کی بات کرتے رہے ہیں جو کرپشن کی وجہ سے کمیونسٹ پارٹی کی ساکھ اور ایک ارب سے زیادہ آبادی والے اس ملک کے مستقبل کو درپیش ہے۔
اور اب جب کہ پارٹی کی قیادت ژی جنپنگ کو منتقل ہو گئی ہے، ایسا لگتا ہے کہ سرکاری عہدے دار بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے کرپشن کو ختم کرنے کی کوششیں تیز کر رہے ہیں، اس سے پہلے کہ کرپشن کا عفریت پارٹی کو ہڑپ کر لے۔
رین جیانمنگ بیجنگ میں Tsinghua University کے اینٹی کرپشن اور گورنینس ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ یہ بات ظاہر ہے کہ نئی قیادت کرپشن کے خطرات اور اس کے نتائج کو کہیں بہتر طریقے سے سمجھتی ہے۔ وہ جس طرح اس سے نمٹ رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس پر فوری توجہ دینا چاہتی ہے۔ وہ ژی جنپنگ کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کرپشن اسی طرح جاری رہا، تو یہ پارٹی کو اور ملک کو لے بیٹھے گا۔‘‘
حالیہ ہفتوں کے دوران، میڈیا میں چین کے سرکاری عہدے داروں کے خلاف تفتیش کی تفصیلات اور ان کی روز افزوں برطرفیوں کی رپورٹیں شائع ہوئی ہیں۔
بہت سے کیسوں میں، سرکاری عہدے داروں کی غیر قانونی سرگرمیوں اور سیاہ کاریوں کی تفصیل سوشل میڈیا سائٹس کے ذریعے آن لائن افشا کر دی گئی۔ پھر عام طور سے، عام لوگوں کی آن لائن سخت تنقید کے بعد، مبینہ الزامات پر حیرت انگیز تیز رفتاری سے کارروائی کی گئی۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژینہوا کے مطابق،سیچوان صوبے کی ایک عہدے دار کو جمعرات کے روز پارٹی میں اس کے عہدے سے بر طرف کر دیا گیا۔ اس سے چند ہی ہفتے قبل، منظر عام پر لایا گیا تھا، اور ایک مہینے سے بھی کم عرصہ پہلے، اسے پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کا بغیر ووٹ والا رکن مقرر کیا گیا تھا۔
بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا پر سرکاری کرپشن کو بے نقاب کرنے کا یہ سلسلہ، ترقی کی علامت ہے۔ چین کے اخبار گلوبل ٹائمز نے کہا ہے کہ اگرچہ مائکرو بلاگرز کا اپنا ایک رول ہے، لیکن وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کرپشن کے انسداد کے کہیں بڑے پراجیکٹ میں ، صرف ایک قدم ہے۔
بیجنگ انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کے پروفیسر ہو ژنگڈو کہتے ہیں کہ مائکرو بلاگ سائٹس، جیسے چین کی ٹوئٹر جیسی سائٹ سے در اصل چین کے نظام میں شفافیت کے فقدان کا اظہار ہوتا ہے۔ ’’بنیادی بات یہ ہے کہ کرپشن کے انسداد کا زیادہ جدید نظام قائم کیا جائے، ایسا نظام جو شفاف ہو، جس میں سرکاری عہدے داروں کے اثاثوں کے اعلان، مالی شفافیت اور جانچ پر انحصار کیا جائے اور جس میں عدلیہ آزاد ہو۔
چین میں پارٹی کا سینٹرل کمیشن فار ڈسپلن انسپیکشن بد عنوان عہدے داروں کی تفتیش کرتا ہے۔ اس کمیشن کے دفاتر حکومت کی ہر سطح پر اور اس کی برانچیں سرکاری ملکیت والی بڑی بڑی کمپنیوں میں بھی موجود ہیں۔
تاہم، جب کبھی اختیارات کے ناجائز استعمال کی خبر ملتی ہے، تو کمیشن کو پارٹی کے ارکان کی مبینہ غلط حرکتوں کی تفتیش کرنے کے لیے، اونچی سطح کے عہدے داروں کی منظوری حاصل کرنی پڑتی ہے۔
ہانگ کانگ کی چائینیز یونیورسٹی میں چینی قانون کی پروفیسر فلورا ساپیو کہتی ہیں کہ در اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ کرپشن کی تفتیش کے لیے زیادہ آزاد ادارہ قائم کیا جائے، اور اس ادارے کی طرف سے کرپشن کی تفتیش کا قانونی ڈھانچہ تیار کیا جائے جس میں اس کے اختیارات کا تعین کیا جائے۔
موجودہ نظام کے تحت، پارٹی کا کرپشن کمیشن تفتیش کرنے، سزائیں دینے، نگرانی کرنے اور کرپشن کے کیسوں کی نگرانی کا انچارج ہے۔ پروفیسر فلورا ساپیو کا کہنا ہے کہ ’’شہادت کے ضابطوں، حراست میں لینے کے اختیارات، اور تفتیشی اقدامات کے بارے میں قواعد و ضوابط کے فقدان کی وجہ سے، کیسوں میں ہیر پھیر کرنا اور تفتیش کو طاقت کی کشمکش کے ذریعے کے طور پر استعمال کرنا آسان ہو جاتا ہے۔‘‘
ساپیو کہتی ہیں کہ اگرچہ حکومت کرپشن کے خلاف اپنی کوششیں تیز کر رہی ہے، لیکن جو چیز انتہائی اہم ہے وہ یہ ہے کہ کیا اصلاح کے عمل کو حالات کو جوں کا توں رکھنے اور سیاسی جھگڑے طے کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے یا تبدیلی لانے کی حقیقی کوشش کی جا رہی ہے۔
ژی جنپنگ کے اس رویے سے چین کے نئے لیڈروں کی اس کوشش کی عکاسی ہوتی ہے کہ عوام میں بے اطمینانی پھیلنے کی ایک اہم وجہ ، یعنی سرکاری حلقوں میں کرپشن کا قلع قمع کیا جائے۔
برسوں سے، چینی لیڈر اس خطرے کی بات کرتے رہے ہیں جو کرپشن کی وجہ سے کمیونسٹ پارٹی کی ساکھ اور ایک ارب سے زیادہ آبادی والے اس ملک کے مستقبل کو درپیش ہے۔
اور اب جب کہ پارٹی کی قیادت ژی جنپنگ کو منتقل ہو گئی ہے، ایسا لگتا ہے کہ سرکاری عہدے دار بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے کرپشن کو ختم کرنے کی کوششیں تیز کر رہے ہیں، اس سے پہلے کہ کرپشن کا عفریت پارٹی کو ہڑپ کر لے۔
رین جیانمنگ بیجنگ میں Tsinghua University کے اینٹی کرپشن اور گورنینس ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ یہ بات ظاہر ہے کہ نئی قیادت کرپشن کے خطرات اور اس کے نتائج کو کہیں بہتر طریقے سے سمجھتی ہے۔ وہ جس طرح اس سے نمٹ رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس پر فوری توجہ دینا چاہتی ہے۔ وہ ژی جنپنگ کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کرپشن اسی طرح جاری رہا، تو یہ پارٹی کو اور ملک کو لے بیٹھے گا۔‘‘
حالیہ ہفتوں کے دوران، میڈیا میں چین کے سرکاری عہدے داروں کے خلاف تفتیش کی تفصیلات اور ان کی روز افزوں برطرفیوں کی رپورٹیں شائع ہوئی ہیں۔
بہت سے کیسوں میں، سرکاری عہدے داروں کی غیر قانونی سرگرمیوں اور سیاہ کاریوں کی تفصیل سوشل میڈیا سائٹس کے ذریعے آن لائن افشا کر دی گئی۔ پھر عام طور سے، عام لوگوں کی آن لائن سخت تنقید کے بعد، مبینہ الزامات پر حیرت انگیز تیز رفتاری سے کارروائی کی گئی۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژینہوا کے مطابق،سیچوان صوبے کی ایک عہدے دار کو جمعرات کے روز پارٹی میں اس کے عہدے سے بر طرف کر دیا گیا۔ اس سے چند ہی ہفتے قبل، منظر عام پر لایا گیا تھا، اور ایک مہینے سے بھی کم عرصہ پہلے، اسے پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کا بغیر ووٹ والا رکن مقرر کیا گیا تھا۔
بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا پر سرکاری کرپشن کو بے نقاب کرنے کا یہ سلسلہ، ترقی کی علامت ہے۔ چین کے اخبار گلوبل ٹائمز نے کہا ہے کہ اگرچہ مائکرو بلاگرز کا اپنا ایک رول ہے، لیکن وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کرپشن کے انسداد کے کہیں بڑے پراجیکٹ میں ، صرف ایک قدم ہے۔
بیجنگ انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کے پروفیسر ہو ژنگڈو کہتے ہیں کہ مائکرو بلاگ سائٹس، جیسے چین کی ٹوئٹر جیسی سائٹ سے در اصل چین کے نظام میں شفافیت کے فقدان کا اظہار ہوتا ہے۔ ’’بنیادی بات یہ ہے کہ کرپشن کے انسداد کا زیادہ جدید نظام قائم کیا جائے، ایسا نظام جو شفاف ہو، جس میں سرکاری عہدے داروں کے اثاثوں کے اعلان، مالی شفافیت اور جانچ پر انحصار کیا جائے اور جس میں عدلیہ آزاد ہو۔
چین میں پارٹی کا سینٹرل کمیشن فار ڈسپلن انسپیکشن بد عنوان عہدے داروں کی تفتیش کرتا ہے۔ اس کمیشن کے دفاتر حکومت کی ہر سطح پر اور اس کی برانچیں سرکاری ملکیت والی بڑی بڑی کمپنیوں میں بھی موجود ہیں۔
تاہم، جب کبھی اختیارات کے ناجائز استعمال کی خبر ملتی ہے، تو کمیشن کو پارٹی کے ارکان کی مبینہ غلط حرکتوں کی تفتیش کرنے کے لیے، اونچی سطح کے عہدے داروں کی منظوری حاصل کرنی پڑتی ہے۔
ہانگ کانگ کی چائینیز یونیورسٹی میں چینی قانون کی پروفیسر فلورا ساپیو کہتی ہیں کہ در اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ کرپشن کی تفتیش کے لیے زیادہ آزاد ادارہ قائم کیا جائے، اور اس ادارے کی طرف سے کرپشن کی تفتیش کا قانونی ڈھانچہ تیار کیا جائے جس میں اس کے اختیارات کا تعین کیا جائے۔
موجودہ نظام کے تحت، پارٹی کا کرپشن کمیشن تفتیش کرنے، سزائیں دینے، نگرانی کرنے اور کرپشن کے کیسوں کی نگرانی کا انچارج ہے۔ پروفیسر فلورا ساپیو کا کہنا ہے کہ ’’شہادت کے ضابطوں، حراست میں لینے کے اختیارات، اور تفتیشی اقدامات کے بارے میں قواعد و ضوابط کے فقدان کی وجہ سے، کیسوں میں ہیر پھیر کرنا اور تفتیش کو طاقت کی کشمکش کے ذریعے کے طور پر استعمال کرنا آسان ہو جاتا ہے۔‘‘
ساپیو کہتی ہیں کہ اگرچہ حکومت کرپشن کے خلاف اپنی کوششیں تیز کر رہی ہے، لیکن جو چیز انتہائی اہم ہے وہ یہ ہے کہ کیا اصلاح کے عمل کو حالات کو جوں کا توں رکھنے اور سیاسی جھگڑے طے کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے یا تبدیلی لانے کی حقیقی کوشش کی جا رہی ہے۔