چین نے مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدہ صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران امریکہ تنازع کے حل کے لیے مذاکرات اور ڈائیلاگ ہی ایک راستہ ہے کیونکہ "محاذ آرائی اور تنازع سے ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائیں گے۔"
چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لو کانگ نے یہ بات منگل کو بیجنگ میں معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران کہی۔
ترجمان سے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے حال ہی میں تہران کو دی گئی دھمکی کے بارے میں سوال پوچھا گیا تھا۔ امریکی صدر نے کہا تھا کہ اگر ایران نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اسے پوری قوت سے جواب دیا جائے گا۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بیجنگ توقع کرتا ہے کہ "متعلقہ فریق ایک دوسرے کے تحفظات کو مناسب طور پر حل کرنے کے لیے تحمل سے کام لے کر بات چیت کا راستہ اختیار کریں گے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "چین نے حال ہی میں ایران اور امریکہ کے ساتھ اس معاملے پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔"
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال چین کے لیے باعثِ تشویش ہے، تو انہوں نے کہا کہ چین کو خطے کی صورتِ حال پر یقیناً تشویش ہے کیوں کہ، ان کے بقول، "خطے میں جاری کشیدگی کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں اور اس کے عالمی معیشت اور سلامتی پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔"
لوکانگ نے مزید کہا کہ "اسی وجہ سے بیجنگ متعلقہ فریقوں کو تحمل سے کام لینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ان پر زور دے رہا ہے کہ معاملے کا مناسب حل بات چیت کے ذریعے تلاش کریں۔"
چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایران اور امریکہ کے درمیان حالیہ دنوں محاذ آرائی میں اضافہ ہو گیا ہے۔
لیکن صدر ٹرمپ نے ایران کے طرزِ عمل پر سخت ردِ عمل کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ اگر ایرانی قیادت چاہے تو وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
دوسری طرف ایران کا کہنا ہے کہ مذاکرات اور سفارت کاری ہمیشہ سے تہران کی ترجیح رہی ہے، لیکن موجودہ صورتِ حال میں بات چیت کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے رواں ہفتے کہا تھا کہ موجودہ حالات بات چیت کے لیے سازگار نہیں، اور، ان کے بقول، ایران کے لیے واحد راستہ مزاحمت اور جدوجہد ہے۔
امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کا آغاز گزشتہ سال اس وقت ہوا تھا جب ٹرمپ حکومت نے ایران اور چھ عالمی طاقتوں بشمول امریکہ کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کیا تھا۔
اس سمجھوتے سے الگ ہونے کے بعد واشنگٹن نے رواں ماہ ایران کی تیل کی برآمدات پر تعزیرات دوبارہ عائد کر دی تھیں۔ پابندیوں کے نفاذ کے فوری بعد امریکہ کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ میں اپنا طیارہ بردار جہاز اور بمبار طیارے تعینات کرنے کے اعلان کے بعد خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔
اگرچہ واشنگٹن کا مؤقف ہے کہ اس نے یہ قدم خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے اٹھایا ہے، تاہم تہران اس موقف کو مسترد کر چکا ہے۔