واشنگٹن —
چین اور جاپان کے درمیان متنازع جزائر کی ملکیت پر جاری تنازع شدت اختیار کرگیا ہے اور جاپانی حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ چین کی کم از کم دو کشتیاں جاپان کے زیرِ انتظام جزائر کی حدود میں داخل ہوگئی ہیں۔
مذکورہ کشتیاں ان 11 کشتیوں میں شامل ہیں جنہیں منگل کی صبح بحیرہ مشرقی چین کے ان متنازع جزائر کے نزدیک دیکھا گیا تھا جنہیں جاپان میں 'سینکاکو' اور چین میں 'دیایو' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
قبل ازیں جاپانی حکام نے چین کی ایک دوسری گشتی کشتی کو علاقے سے واپس جانے پر مجبور کردیا تھا۔
منگل کو دو جاپانی کارکن بھی بطورِ احتجاج ان جزائر پر تھوڑی دیر کے لیے اترے تھے جس پر چین کی وزارتِ خارجہ نے سخت احتجاج کرتے ہوئے اسے چین کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور "انتہائی اشتعال انگیز قدم" قرار دیا تھا۔
مذکورہ جزائر کی اکثریت غیر آباد ہے اور دونوں ممالک کے درمیان ان کی ملکیت پر چلے آرہے دیرینہ تنازع میں شدت ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب چین پر جاپانی حملے کی سالگرہ قریب ہے۔
جزائر کی ملکیت کے تنازع پر چین میں جاپان کےخلاف یومِ احتجاج بھی منایا گیا ہے جس کے دوران میں ملک کے تمام بڑے شہروں میں ٹوکیو حکومت کےخلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔
ہزاروں چینی باشندوں نے دارالحکومت بیجنگ میں واقع جاپانی سفارت خانے کے باہر بھی مظاہرہ کیا اور چینی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جزائر کی ملکیت کے دعووں کا دفاع کرے۔
مظاہروں کے دوران میں مشتعل افراد نے چین میں قائم جاپانی کمپنیوں کے دفاتر پر حملے بھی کیے جس کے پیشِ نظر 'ہونڈا'، 'ٹویوٹا'، 'مٹسوبشی' اور 'پینا سونک' سمیت کئی جاپانی کمپنیوں نے چین میں اپنی سرگرمیاں معطل اور تنصیبات بند کردی ہیں۔
یاد رہے کہ چین اور جاپان براعظم ایشیا کی دو سب سے بڑی معاشی طاقتیں ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان قریبی اقتصادی تعلقات قائم ہیں۔ صرف گزشتہ برس ہی دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی باہمی تجارت کا حجم 342 ارب ڈالر تھا۔
تاہم بعض تجزیہ کاروں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ حالیہ کشیدگی دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعلقات پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے کیوں کہ چینی حکام پہلے ہی جاپان کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا امکان ظاہر کرچکے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ گزشتہ ہفتے جاپانی حکومت کی جانب سے یہ ارادہ ظاہر کرنے کے بعد ہوا تھا کہ وہ ان جزائر میں سے بعض کو ان کے جاپانی مالکان سے خریدلے گی۔
جاپانی حکومت کے اس بیان کے بعد سے چین میں جاپان مخالف مظاہرے جاری ہیں۔
مذکورہ کشتیاں ان 11 کشتیوں میں شامل ہیں جنہیں منگل کی صبح بحیرہ مشرقی چین کے ان متنازع جزائر کے نزدیک دیکھا گیا تھا جنہیں جاپان میں 'سینکاکو' اور چین میں 'دیایو' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
قبل ازیں جاپانی حکام نے چین کی ایک دوسری گشتی کشتی کو علاقے سے واپس جانے پر مجبور کردیا تھا۔
منگل کو دو جاپانی کارکن بھی بطورِ احتجاج ان جزائر پر تھوڑی دیر کے لیے اترے تھے جس پر چین کی وزارتِ خارجہ نے سخت احتجاج کرتے ہوئے اسے چین کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور "انتہائی اشتعال انگیز قدم" قرار دیا تھا۔
مذکورہ جزائر کی اکثریت غیر آباد ہے اور دونوں ممالک کے درمیان ان کی ملکیت پر چلے آرہے دیرینہ تنازع میں شدت ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب چین پر جاپانی حملے کی سالگرہ قریب ہے۔
جزائر کی ملکیت کے تنازع پر چین میں جاپان کےخلاف یومِ احتجاج بھی منایا گیا ہے جس کے دوران میں ملک کے تمام بڑے شہروں میں ٹوکیو حکومت کےخلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔
ہزاروں چینی باشندوں نے دارالحکومت بیجنگ میں واقع جاپانی سفارت خانے کے باہر بھی مظاہرہ کیا اور چینی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جزائر کی ملکیت کے دعووں کا دفاع کرے۔
مظاہروں کے دوران میں مشتعل افراد نے چین میں قائم جاپانی کمپنیوں کے دفاتر پر حملے بھی کیے جس کے پیشِ نظر 'ہونڈا'، 'ٹویوٹا'، 'مٹسوبشی' اور 'پینا سونک' سمیت کئی جاپانی کمپنیوں نے چین میں اپنی سرگرمیاں معطل اور تنصیبات بند کردی ہیں۔
یاد رہے کہ چین اور جاپان براعظم ایشیا کی دو سب سے بڑی معاشی طاقتیں ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان قریبی اقتصادی تعلقات قائم ہیں۔ صرف گزشتہ برس ہی دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی باہمی تجارت کا حجم 342 ارب ڈالر تھا۔
تاہم بعض تجزیہ کاروں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ حالیہ کشیدگی دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعلقات پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے کیوں کہ چینی حکام پہلے ہی جاپان کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا امکان ظاہر کرچکے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ گزشتہ ہفتے جاپانی حکومت کی جانب سے یہ ارادہ ظاہر کرنے کے بعد ہوا تھا کہ وہ ان جزائر میں سے بعض کو ان کے جاپانی مالکان سے خریدلے گی۔
جاپانی حکومت کے اس بیان کے بعد سے چین میں جاپان مخالف مظاہرے جاری ہیں۔