چین کے تازہ ترین اقتصادی اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں نمو کی رفتار مسلسل سست ہوتی جا رہی ہے ۔ برآمدات، صنعتی پیداوار، اور عام اشیاء کی فروخت، سب میں گذشتہ سال کے مقابلے میں کمی آئی ہے ۔
اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ افراطِ زر اور عام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی شرح بھی کم ہو گئی ہے ۔ چین کے لیڈروں کے لیے جو کروڑوں متوسط اور نچلے طبقے کے کارکنوں کی ضروریات پوری کرنے کے بارے میں پریشان ہیں، یہ بڑی اہم بات ہے ۔ لیکن ان چینی عہدے داروں کے لیے جو معاشرتی استحکام قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، اقتصادی شعبے میں ایک چیز اب بھی تشویش کاباعث ہے اور وہ ہے دولت کی تقسیم میں عدم مساوات۔
وزیرِ اعظم وین جیا باؤ حال ہی میں بیجنگ میں بس ڈرائیوروں اور صفائی کرنے والے کارکنوں سے ملے اور ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا۔
مزدوروں میں امن و سکون قائم رکھنے کے لیے، حکومت نے سب سے کم اجرتیں پانے والے کارکنوں کی تنخواہوں میں اضافے کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ شماریات کے قومی بیورو نے گذشتہ ہفتے اطلاع دی کہ 2011 میں دیہاتوں سے نقلِ مکانی کرکے آنے والے مزدوروں کی اجرتوں میں 21 فیصد اضافہ ہوا۔ شنگھائی میں ، ہر سال اجرتوں میں14 فیصد کا اضافہ ہوتا رہاہے ۔
مزدوروں نے اجرتوں میں بہتری کے علاوہ اور بھی فائدے اٹھائے ہیں۔ مثلاً وہ اب زیادہ آسانی سے 2008 کے لیبر کنٹریکٹ لا کے تحت اپنے قانونی حقوق پر زور دے سکتے ہیں۔ ڈیلوئیٹ چائنا ریسرچ اینڈ انسائیٹ سنٹر کے ڈائریکٹر ڈی ووسکن کا خیال ہے کہ دولت کی تقسیم میں بہت زیادہ اونچ نیچ کی وجہ سے محنت کش طبقے کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔’’وہ ایسی گاڑیاں دیکھتے ہیں جن کی قیمت ان کے گھرانوں کی پوری زندگی کی کمائی سے بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ اگر وہ سب سے کم اجرت پانے والوں میں ہیں، تو اپنے ارد گرد اتنی دولت اور اتنا سامانِ تعیش دیکھ کر انہیں غصہ آتا ہے ۔ میرے خیال میں چین میں آج کل نمود و نمائش کا بحران آیا ہوا ہے ۔‘‘
مزدوروں کے حقوق میں کچھ بہتری کے باوجود، چائنا لیبر بلیٹن نے انکشاف کیا کہ گذشتہ دو مہینوں میں ہڑتالوں کی تعداد 2010 کے بعد سے جب مزدوروں میں بے چینی کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا گیا ہے، سب سے زیادہ رہی ہے ۔
مانچسٹر یونیورسٹی بزنس اسکول کے پروفیسر کاریل ویلیمز کہتے ہیں کہ چین کو جاپان اور جنوبی کوریا جیسے اقتصادی ماڈل اختیار کرنا چاہئیں ، یعنی اپنی لیبر فورس کی مہارتوں اور خوشحالی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک کو ترقی کے اگلے مرحلے کی طرف لے جانا چاہیئے ۔
’’چین کو اقتصادی شعبے میں جو برتری حاصل ہے وہ بڑھتی ہوئی اجرتوں اور زرِ مبادلہ کی شرحوں سے ختم ہو سکتی ہے ۔ چین کو کم اجرتیں ادا کرنے والا ملک نہیں رہنا چاہیئے بلکہ ریسرچ اور ترقی کی صلاحیتیں پیدا کرنی چاہئیں اور مشہور برانڈز کی اشیاء تیار کرنے کی صلاحیتوں کی تعمیر کرنی چاہیئے ۔‘‘
ڈی ووسکن کہتے ہیں کہ تاریخی اعتبار سے، چین نے دولت میں عدم مساوات سے نمٹنے میں بڑی لچک کا مظاہرہ کیا ہے، اور اس بات کا امکان نہیں کہ چینی مزدو ر اس قسم کی بےچینی کا سبب بنیں گے جو مشرقِ وسطیٰ میں چھائی ہوئی ہے ۔’’چین میں عام طور سے ڈرامائی تبدیلی اس لیے آتی ہے کہ کوئی متبادل لیڈر، طاقت کے کسی متبادل مرکز کا سبب بن جاتا ہے ۔ اس طر ح لیڈروں میں مسابقت شروع ہو جاتی ہے ۔ سیاسی طور پر آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں، اس کی وجہ کوئی نظریاتی کشمکش یا عام لوگوں میں بے چینی نہیں ہے، بلکہ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ حکومت کے مختلف دھڑے اپنے درمیان دشواریو ں کا حال تلاش کر رہے ہیں۔‘‘
چین میں ہر عشرے کے بعد اقتدار میں جو تبدیلی آتی ہے،وہ اس سال کے آخر میں کمیونسٹ پارٹی کی اٹھارویں نیشنل کانگریس کے دوران آئے گی ۔ قیادت میں تبدیلی سے قبل کے مہینوں میں، سرکاری عہدے دار، مزدوروں میں بے چینی اور ملک میں استحکام پر اس کے اثرات کے بارے میں بہت زیادہ محتاط رہیں گے ۔