چین میں حکام نے اطلاعات کے مطابق اپنے ملک شورش زدہ خطے سنکیانگ کے ایک علاقے میں مسلمانوں کو اپنی دکانوں اور ریستورانوں میں شراب اور سگریٹ فروخت کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس کی واضح تشہیر کریں بصورت دیگر ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا اور ان کے کاروبار کو بند کر دیا جائے گا۔
یہ خبر ریڈیو فری ایشیا نے دی ہے اور اس کے بقول اس اقدام کا مقصد مقامی لوگوں پر بڑھتے ہوئے اسلامی اثر و رسوخ کو کمزور کرنا ہے۔
جنوبی سنکیانگ کے گاؤں اکتاش میں کمیونسٹ پارٹی کے عہدیدار عادل سلیمان نے ریڈیو فری یورپ کو بتایا کہ بہت سے دکانداروں نے "مقامی آبادی کی خوف سے" 2012ء میں سگریٹ اور شراب فروخت کرنا بند کر دیا تھا جب کہ بہت سے لوگوں نے مہ اور تمباکو نوشی سے پرہیز کا فیصلہ کیا۔
اسلام میں نشے کو حرام قرار دیا گیا ہے جب کہ بعض مذہبی علما تمباکو نوشی سے بھی منع کرتے ہیں۔
سلیمان کا کہنا تھا کہ سنکیانگ میں حکام سگریٹ نہ پینے والے ایغور نسل کے مسلمانوں کے اس فعل کو "مذہبی انتہا پسندی کی ایک شکل" تصور کرتے ہیں اور انھوں نے یہ تازہ حکم بڑھتے ہوئے مذہبی جذبات کو روکنے کے لیے دیا ہے۔ حکام کے مطابق یہ جذبات "استحکام کو متاثر" کر رہے ہیں۔
اس بارے میں جاری کیے گئے ایک نوٹس کے مطابق اکتاش میں ریستورانوں اور سپر مارکیٹوں کو شراب اور سگریٹ کے پانچ برانڈ فروخت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ "جو بھی اس نوٹس کو نظرانداز کرتا ہے اور اس پر عملدرآمد میں ناکام رہتا ہے، اس کی دکان اور کاروبار کو بند کر دیا جائے گا اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔"
اس علاقے میں حالیہ برسوں میں ایغور نسل کے مسلمانوں اور سکیورٹی فورسز میں جھڑپوں کے علاوہ خنجر زنی اور فائرنگ کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
چین کا کہنا ہے کہ بیرون ملک مقیم ایغور عسکریت پسند گروپ انٹرنیٹ کے ذریعے مقامی مسلمانوں کو ریاست کے خلاف پرتشدد کارروائیوں پر اکساتے ہیں۔
تاہم ناقدین کہتے ہیں کہ چین کی طرف سے ایغور نسل کے باشندوں کے خلاف ایک عرصے سے مبینہ طور پر ڈالا جانے والا دباؤ اور ان کے مذہبی و قومی جذبات کو دبانے کے ہتھکنڈوں کی وجہ سے یہ لوگ تشدد کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔
چین کی طرف سے پہلے بھی سنکیانگ میں مسلمانوں کے خلاف ایسے کئی اقدامات سامنے آچکے ہیں جس میں مبینہ طور پر رمضان میں روزے رکھنے پر پابندی کے علاوہ عورتوں کو نقاب اوڑھنے اور مردوں کو داڑھی رکھنے سے منع کیا گیا۔