چین کے نسلی لحاظ سے منقسم خطے میں حجاب پر پابندی عائد کی گئی ہے، جو روایتی طور پر کچھ مسلمان خواتین اوڑھتی ہیں۔
اُرمچی میں سرکاری ابلاغ عامہ نے جمعرات کو خبر دی ہے کہ اِس بات کی منظوری مقامی کمیونسٹ پارٹی کے قائدین نے دی ہے، جس سے قبل سرکاری قائمہ کمیٹی کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔
سنکیانگ میں اہل کاروں نے اسلامی طرز زندگی پر کئی ایک قدغنیں عائد کی ہیں، ایسے میں جب وہ نسلی کشیدگی کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے نمٹنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
حالیہ برسوں کے دوران رونما ہونے والی ہنگامہ آرائی اور سرکار کے خلاف حملوں کا ایک سلسلہ نمودار ہوا ہے، جس میں رفتہ رفتہ شہریوں کے علاوہ سنکیانگ اور اس کے قرب و جوار میں واقع اہداف بھی نشانہ بنتے رہے ہیں۔
تشدد کی اِن کارروائیوں کے لیے، حکومت مسلمان علیحدگی پسندوں پر الزام دیتی ہے، جنھیں، بقول اُس کے، غیر ملکی حمایت حاصل ہے۔ حکومت نے وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن کیے ہیں۔ صرف اِسی سال، درجنوں افراد کو پھانسیاں دی جا چکی ہیں، جب کہ سینکڑوں کو قید میں رکھا گیا ہے۔
تاہم، سنکیانگ کی اکثریتی مسلمان یغور نسلی آبادی کا کہنا ہے کہ امتیازی سلوک پر مبنی پالیسیاں ہی تشدد کی اِن کارروائیوں پر اکسانے کا سبب بن رہی ہیں۔
برقعے پر پابندی کے علاوہ، ماضی میں سنکیانگ کے حکام لمبی داڑھیوں والے مرد حضرات کو پبلک بسوں میں سوار ہونے سے روکتے رہے ہیں۔ چند طالب علموں کو مسلمانوں کے متبرک ماہِ رمضان میں روزے رکھنے سے باز رکھا گیا ہے۔
متعدد یغور اس بات کی بھی شکایت کرتے ہیں کہ اُن کے معاشی حقوق غصب کیے جا رہے ہیں اور چین کے سب سے بڑے نسلی گروپ، ’ہان‘ کے ساتھ ترجیحی سلوک برتا جا رہا ہے، جنھیں جوق در جوق سنکیانگ کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے۔
چین یغور افراد کے ساتھ کسی امتیازی سلوک برتنے کی تردید کرتا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ وہ علاقے کے لیے خصوصی رقوم مختص کر رہی ہے، تاکہ لوگوں کی عام زندگی کا معیار بلند کیا جاسکے۔